بلوچ لاپتہ افراد کیلئے دھرنا 17 روز سے جاری، لواحقین کا حکومت سے مطالبات کی منظوری کا مطالبہ

کوئٹہ (انتخاب نیوز) زیارت واقعے کیخلاف بلوچ لاپتہ افراد کے اہلخانہ کا ریڈ زون میں گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنے کو جاری 17 روز ہوگئے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، بی این پی، بلوچ یکجہتی کمیٹی، بلوچ لاپتہ افراد کے اہلخانہ اور دیگر کی جانب سے گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا 17 روز سے جاری ہے۔ دھرنے کے شرکاء کی جانب سے پیش کیے گئے مطالبات تاحال منظور نہیں کیے جاسکے۔ دھرنا کیمپ میں متعدد بلوچ لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی جانب سے شرکت کی گئی۔ اس موقع پر 12 سال سے جبری لاپتہ محمد رمضان بلوچ تاحال بازیاب نہ ہو سکے۔ والد کی بازیابی کیلئے علی حیدر کی کئی سال کی جدودجہد کے بعد اب اسکی چھوٹی بہن انیسہ نے گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنے میں شرکت کی۔ انیسہ نے اس موقع پر کہا کہ تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں ہم نے اپنا وقت احتجاج اور مظاہروں میں گزار دی،علی حیدر نے کہا کہ گھر میں کمانے والا کوئی نہیں، پڑھنے لکھنے کی عمر میں گھر والوں کا خیال رکھنے کیلئے محنت مزدوری کرتا ہوں۔ میری چھوٹی بہن انیسہ ابو کی بازیابی کیلئے کوئٹہ دھرنے میں شریک ہیں، سب لوگوں سے گزارش ہے کہ ہماری آواز بنیں۔ لاپتہ سیف اللہ رودینی کی بہن فرزانہ رودینی نے گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنے میں شرکت کرتے ہوئے اپنے بھائی کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ لاپتہ گل محمد مری کی والدہ نے دھرنا کیمپ میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ میرے بیٹے کی جبری گمشدگی کو 12 سال ہوگئے ہیں جو تاحال لاپتہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ گل محمد کے چھوٹے بچے ہیں جو کئی سال سے بھوک و افلاس اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے مقتدر حلقوں سے لاپتہ بیٹے کی جلد بازیابی کا مطالبہ کیا۔ 12 فروری 2012 ء کو کراچی ایئر پورٹ سے لاپتہ کیے گئے دوست محمد بلوچ جن کا تعلق پنجگور سے تھا تاحال بازیاب نہیں ہوسکے۔ غلام جیلانی کو خاران سے 19 جولائی کو لاپتہ کیا گیا جو تاحال بازیاب نہیں ہوسکے۔ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے جاری دھرنے کو 17 دن مکمل ہوگئے، جو اب بھی کوئٹہ میں گورنر اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں