شاہ دُدلہ کے نئے چوہے

انور ساجدی
ویسے تو پاکستان میں شاہ دُولہ کے چوہے مشہور ہیں لیکن حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر بھی ان کی بڑی تعداد موجود ہے ضعیف الاعتقادی اتنی ہے کہ دیگر بزرگان دین کے مزاروں پر بھی اس طرح کی معصوم مخلوق ضرور موجود ہوگی اس کے بارے میں کئی دستاویزی فلمیں بن چکی ہیں اور پاکستان جیسے ممالک میں معصوم بچوں کو بلاوجہ معذور بنانا اور مزاروں کی بھینٹ چڑھانے کے ظالمانہ اور غیر انسانی عمل کو اجاگر کیا گیا ہے میرا خیال ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے ان معصوم چوہوں کو دیکھ ہی کر فیصلہ کیا ہوگا کہ کس طرح انسانی ارتقاء کو روک کر مختلف شعبوں میں ایسے لوگ تیار کئے جائیں جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوں اس سلسلے میں فیلڈ مارشل ایوب خان کا بنیادی کردار ہے کیونکہ انہیں عہدہ صدارت کی ضرورت ہوئی تو انہوں نے ملک میں بنیادی جمہوریتوں کا نظام نافذ کیا یہ ایم این اے‘ ایم پی اے اور صدر کو منتخب کرنے کا ایکٹورل کالج بھی تھا انہوں نے اس کی یہ توجیح پیش کی کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت لکھی پڑھی نہیں ہے وہ اپنا برا بھلا نہیں سمجھتی اس لئے بی ڈی بحران کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ بڑے عہدوں پر نمائندے منتخب کریں حالانکہ قیام پاکستان سے بہت پہلے متحدہ ہندوستان میں 1937ء اور 1946ء میں جو انتخابات ہوئے تھے ان میں عوام نے بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا لیکن پاکستانی حکمرانوں نے شروع سے ہی عوام کو جاہل سمجھا اور 9 سال تک کوئی آئین نہیں بنایا کیونکہ وہ کنفیوژ تھے کہ ملک میں کس طرح کا نظام رائج کیا جائے لیاقت علی خان نے قرار داد مقاصد لاکر گویا جمہوریت کے نفاذ کے آگے مضبوط بند باندھ دیا تھا جس کے اثرات آج تک قائم ہیں خدا خدا کرکے 1956ء میں پہلا آئین بنا لیکن 1958ء میں اس آئین کو منسوخ کردیا گیا ایوب خان نے چار سال تو مارشل لاء کے ذریعے چلائے لیکن جیسا کہ ہر آمر کو صدارتی پیرہن کی ضرورت ہوتی ہے انہوں نے صدر منتخب ہونے سے پہلے بنیادی جمہوریتوں کا نظام بنایا متحدہ پاکستان میں ان کی کل تعداد 80 ہزار رکھی گئی مشرقی اور مغربی پاکستان کے ممبران کی تعداد برابر رکھی گئی حالانکہ مشرقی حصے کی آبادی زیادہ تھی ان لوگوں نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کا انتخاب کیا یہ سب کچھ غیر جمہوری اور ناانصافی پر مبنی ون یونٹ کے تحت کیا گیا ایوب خان نے 1962ء میں نیا آئین نافذ کیا جو عجیب و غریب تھا ایوب خان نے 22 خاندانوں کے علاوہ اپنے مصاحبین پر مشتمل نئی اشرافیہ تشکیل دی جبکہ 22 خاندانوں کی بنیاد بانی پاکستان نے ڈالی تھی ایک سہگل کو چھوڑ کر بیشتر خاندانوں کا تعلق انڈیا سے تھا باقی عام لوگوں کو ایوب خان نے بھیڑ بکریاں سمجھا جبکہ انہوں نے ایبڈو لگاکر بیشتر بڑے سیاستدانوں کو سیاست سے آؤٹ کردیا اور ”شاہ دُولہ“ کے چوہے نما سیاستدانوں کی نئی کھیپ تیار کرلی یہ لوگ روز اخبارات میں ایوب خان کی تعریف و توصیف کے بیانات جاری کرتے تھے اور ڈویژنل کمشنر کی خوشنودی حاصل کرکے مراعات حاصل کرتے تھے ایوب خان کے زوال کے بعد جب بھٹو آئے تو انہوں نے طاقت کا سرچشمہ عوام کو قرار دیا لیکن جب ضیاء الحق تشریف لائے تو انہوں نے طاقت کے سرچشمہ کو ایسی سزا دی کہ وہ آج تک نہیں اٹھ سکا بھٹو چونکہ سیاست کو ڈرائننگ رومز سے عوام میں لائے تھے اس لئے ضیاء الحق نے فیصلہ کیا کہ اسے دوبارہ کنٹرول میں لایا جائے انہوں نے پہلے مجلس شوریٰ بنائی جس میں انواع و اقسام کے لوگ نامزد کئے گئے ایوب خان کی طرح ضیاء الحق کو بھی صدر بننے کی آرزو ہوئی تو انہوں نے 1984ء کا جعلی ریفرنڈم کرواکر خود کو منتخب قرار دیا اس کے بعد انہیں دنیا کو دکھانے کے لئے جعلی پارلیمنٹ اور جعلی اسمبلیاں بنانے کی ضرورت پڑی چنانچہ 1985ء میں انہوں نے غیر جماعتی انتخابات کروائے تاکہ سیاسی جماعتیں اس میں شرکت نہ کرسکیں جنرل چشتی کے ذریعے پاکستان بھر سے ایسے لوگ تلاش کئے گئے جو زیادہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری تھے یعنی ایک طرح سے یہ شاہ دُولہ کے چوہوں نما مخلوق تھی ضیاء الحق کافی ہوشیار آدمی تھے انہوں نے سیف اللہ اور شیر افگن جیسے لوگ بھی پارلیمنٹ میں پہنچادیئے جنہیں جعلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کو دیا گیا تاکہ نئی اسمبلیوں کی ساکھ قائم ہوسکے اگرچہ اسپیکر کے لئے ان کے امیدوار سیالکوٹ کے خواجہ صفدر تھے لیکن انہوں نے صحتمند مقابلہ کے لئے بیگم عابدہ حسین کے شوہر فخر امام کو بھی کھڑا کردیا نتیجے میں خواجہ صاحب ہار گئے وہ ایوب خان کی جعلی اسمبلی میں بھی پاکٹ اپوزیشن کا کردار ادا کرتے رہے تھے ضیاء الحق نے سیاست میں بدترین کرپشن کو رواج دیا حالانکہ وہ نظام مصطفی نافذ کرنے آئے تھے انہوں نے پہلی بار ہر ایم پی اے کو 50 لاکھ اور ہر ایم این اے کو 80 لاکھ روپے دیئے ان کا قائم کردہ غیر جمہوری چلن آج تک قائم ہے ضیاء الحق نے پریس پر بدترین سنسر شپ نافذ کرکے تمام اخباری مالکان کو حکم دیا کہ وہ ان کی تعریف و توصیف کے سوا اور کچھ نہ چھاپیں اس زمانے کے سرکاری اخبار مشرق میں روز ایک کالم چھپتا تھا ڈائریکٹ ڈائلنگ یہ مکمل طور پر ضیاء الحق کی خوشنودی کے لئے شائع ہوتا تھا پی ٹی وی کے پروگرام ان کی شان میں قصیدے ہوتے تھے ضیاء الحق نے پرانا سیاسی کلچر بدلنے کے لئے پیپلز پارٹی سمیت کئی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی اور جمہوریت کے لئے آواز اٹھانے والے سیاسی کارکنوں کو کوڑے لگائے اور ایک بڑی تعداد کو تختہ دار پر لٹکادیا انہوں نے اپنا نیاسیاسی بیانیہ جاری کیا جس کو ماننا ہر ایک کے لئے ضروری تھا وہ اسلام کے مقدس نام کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے تھے اس مقصد کے لئے انہوں نے کئی ایسے معصوم لوگ تیار کئے تھے جو اپنے وقت کے شاہ دُولہ کے چوہے تھے ضیاء الحق نے 1973ء کے آئین کو پہلے منسوخ کیا پھر اس کا حلیہ بگاڑ کر نافذ کیا انہوں نے تاحیات خلیفہ مسلمین بننے کے لئے افغانستان میں جہاد شروع کیا اور امریکا پر زور دیا کہ ان لوگوں کو مجاہدین کا لقب دیا جائے چنانچہ صدر ریگن نے عالمی سطح پر پہلی بار مجاہدین کا لفظ استعمال کیا جس کے بعد مغربی میڈیا جنگ کے حوالے سے روزانہ یہی لفظ استعمال کرنے لگا ضیاء الحق نے اپنی طاقت میں اضافے کے لئے 50 لاکھ افغانوں کو مہاجر بناکر پناہ دی ان لوگوں کو منشیات اور اسلحہ فروخت کرنے کی آزادی دی گئی ضیاء الحق نے ان لوگوں کو ذریعے ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کو جنم دیا جس سے آج تک جان نہیں چھوٹ رہی ہے مرحوم نے پورا نصاب بدل ڈالا اور جہادی مضامین کو لازمی قرار دیا انہوں نے پہلی بار فوج میں اسلامی کلچر کا اہتمام کیا تاکہ یہ باور کرایا جاسکے یہ ایک اسلامی فوج ہے اور اس کا مقصد پوری دنیا میں جہاد کرنا ہے انہوں نے جنرل حمید گل کو فرض سوپنا کہ وہ اسلامی لٹریچر عام کرے اس طرح ضیاء الحق نے پاکستان کی پوری سمت تبدیل کردی ان کے بعد اگرچہ جنرل پرویز مشرف ثقافتی طور پر مغرب زدہ تھے اور ہر شام کو محفلیں برپا کرنے گانا گانے حتیٰ کہ رقص و سرود کے بھی شوقین تھے اس کے باوجود انہوں نے ضیاء الحق کا ورثہ جاری رکھا وہ پہلے طالبان کے بااعتماد سپورٹر تھے لیکن افغانستان پر حملہ کے وقت یوٹرن لگاکر امریکہ سے مل گئے لیکن ضیاء الحق نے جو سیاسی چوہے جمع کئے تھے جنرل مشرف نے وہ سارے سنبھال کر رکھے تھے لیکن 1999ء میں ان کی اور ضیاء الحق کے جانشین نواز شریف کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے جس کے نتیجے میں نواز شریف کو دہشت گردوں کے ایک کینگرو کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی کہا جاتا ہے کہ ضیاء الحق نے جج سے کہا تھا کہ پھانسی کی سزا سنائی جائے تاکہ وہ دوسرے سویلین وزیراعظم کو پھانسی چڑھاکر اپنی دہشت بٹھائیں بہرحال شریف خاندان قید و بند کی صعوبتیں برداشت نہ کرسکا اور تحریری معافی نامہ لکھ کر دینے کے بعد سعودی عرب جلا وطن ہوگیا افغان جنگ کے خاتمے کے بعد جنرل مشرف جب سیاسی و معاشی طور پر بری طرح پھنس گئے تو انہیں متحرمہ بینظیر کو این آر او دے کر واپس آنے کی اجازت دینا پڑی تاہم بینظیر کو راولپنڈی میں ایک ”کنسورشیم“ نے مل کر راستے سے ہٹایا جو اس ملک میں ایک بار پھر ضیاء الحق کا نظام واپس لانا چاہتا تھا اس قتل کے بعد اگرچہ اس منصوبہ میں رکاوٹ پیدا ہوگئی جو نواز شریف کی گرفتاری تک جاری رہی ضیاء الحق کے جانشینوں نے 2018ء کے انتخابات میں اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جس کے نتیجے میں جناب عمران خان وزیراعظم بن گئے ان کی شخصیت اس طرح کی ہے کہ اگر ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق اور مشرف کی خامیاں اور خوبیاں یکجا کی جائیں تو جناب عمران خان کی شخصیت مکمل ہوتی ہے گزشتہ سالوں میں ان کی راہ میں کئی رکاوٹیں پیدا ہوئیں کیونکہ جو لوگ انہیں لائے تھے انہوں نے درمیان میں ان کے ہاتھ بھی روکے ورنہ ملک کی تمام جیلوں میں جگہ نہ ہوتی وہ انتہائی منتقم مزاج واقع ہوئے ہیں انہوں نے اپنا پہلا غیض و غضب پرنٹ میڈیا پر ظاہر کیا اگر وہ 3 سال مزید برسر اقتدار رہے تو پرنٹ میڈیا کا نام و نشان مٹاکر دم لیں گے اگر ان کا بس چلے تو زرداری کو ایک دن بھی چلنے نہ دیں اگر عدالتیں نہ ہوتیں تو وہ کئی لوگوں کے سر قلم کرچکے ہوتے انہوں نے اپنے ارد گرد ایسے لوگ جمع کئے ہیں جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے لاکھوں اپنے نوجوان تیار کئے ہیں اگر ہلاکو خان کا دور ہوتا تو مخالفین کے سروں کے مینار بنا ڈالتے ایک ادنیٰ سی مثال لیجئے۔
کرونا کی وجہ سے جو لاک ڈاؤن تھا اسے توڑتے ہوئے عمران خان کے دست راست اسد عمر اور صحت کے مشیر ظفر مرزا نے گزشتہ روز برملا کہا کہ لاک ڈاؤن توڑ کر ہم ہرڈایمونٹی پیدا کررہے ہیں یعنی انہوں نے 22 کروڑ عوام کو بھیڑ بکریوں سے تشبیہ دی ان کے نزدیک ان کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں وہ مریں یا جئیں اشرافیہ کی بلا سے اگر کوئی دم دار اپوزیشن ہوتی تو ابھی تک شور مچاکر حکومت کا ناطقہ بند کرچکی ہوتی مگر افسوس کہ شہباز شریف بھی ڈمی اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کررہے ہیں بلاول کے مشیر بھی اچھے نہیں ہیں حکمران جانتے ہیں کہ اگر کورونا عروج پر پہنچا تو کئی ہزار لوگ مریں گے لیکن وہ جان بوجھ کر لوگوں کو مرنے دے رہے ہیں اب تو انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ اگر کورونا کے مریض صحتمند لوگوں میں مل جائیں تو ان کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوجاتا ہے یعنی انہوں نے ریوڑ کو موت کے بھیڑیا کے حوالے کردیا ہے اگر مہذب الفاظ استعمال کئے جائیں تو کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام اللہ کے حوالے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں