عاصمہ جہانگیر کانفرنس کی مجبوریاں ۔۔۔ صحافی ارشد شریف کا قتل

تحریر : انور ساجدی
ریاست کے حالات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہے ہیں کوئی بعید نہیں کہ یہ ظالمانہ اور غیر منصفانہ حالات کئی لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیں آئندہ تین ہفتوں میں کیا کچھ ہوگا کوئی نہیں جانتا ایمپائر کیا سوچ رہے ہیں کھلاڑی کیا عزائم رکھتے ہیں اس کا فیصلہ ہونے میں زیادہ دیر نہیں ہے۔
کینیا سے یہ افسوسناک خبر آئی ہے کہ اے آر وائی نیوز چینل کے سابق اینکر ارشد شریف پر اسرار حالات میں پولیس کی گولی کا نشانہ بنے ہیں وہ ایک چیک پوسٹ پر رکنے کے اشارہ پر نہیں رکے تھے جس کی وجہ سے پولیس نے ان کے سر پر گولی ماری اور وہ موقع پر جاں بحق ہوگئے اصل صورتحال کیا ہے وہ توتفتیش اور تحقیق کے بعد ہی پتہ چلے گا تاہم تحریک انصاف نے قبل از وقت اس قتل کے الزامات عائد کردیئے ہیں اور وہ اس سانحہ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے پیر کی صبح مرحوم ارشد شریف کی والدہ سے ملاقات کے بعد شیخ رشید احمد نے کہا کہ ارشد شریف کے سر کی قیمت مقرر تھی اس کے علاوہ کئی لوگوں کے سروں کی قیمت مقرر ہے انہوں نے اپنی جان کو لاحق خطرات کا عندیہ بھی دیا اسی طرح عمران خان نے ارشد شریف کو شہید صحافت قرار دیا ہے جوں جوں وقت گزرتا جائےگا تحریک انصاف کسی جانچ اور تحقیق کے بغیر اس سانحہ کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کرے گی ارشد شریف کئی سال پہلے تک ایک سکہ بند صحافی اور اینکر تھے لیکن رفتہ رفتہ عمرانی کلٹ کا حصہ بن گئے اور انہوں نے عمران خان کے حق میں پروگرام اور پروپیگنڈہ کو لازمی حصہ بنادیا خاص طور پر عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کی معزولی کے بعد وہ سخت بددل دل گرفتہ اور مایوس تھے انہوں نے فوری طور پر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا پہلے وہ دوبئی گئے وہاں سے لندھ چلے گئے اور معلوم نہیں کہ کیوں کینیا جیسے غیر جمہوری ملک جانے کا فیصلہ کیا ملک چھوڑنے کے بعد اے آئی وائی نیوز نے ان کی علیحدگی کا اعلان کیا تھا اس تمام عرصہ میں وہ سوشل میڈیا پر سرگرم تھے اور ان کا ہدف وہ عناصر اور ذرائع تھے جنہوں نے عمران خان کو ایک سازش کے تحت اقتدار سے علیحدہ کیا وہ بڑے بے یاکانہ مگر پر خطر تبصرہ کرتے تھے صحافیوں کا ایک حلقہ اور تحریک انصاف کے لوگ اسے ایک باقاعدہ قتل قرار دے رہے ہیں جو منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا وہ خاص عناصر کی طرف انگلی اٹھارہے ہیں ایسے وقت میں جبکہ ریاستی حالات انتہائی نازک رخ اختیار کررہے ہیں تحریک انصاف نے اپنے خاص ہدف کی طرف تنقید کے نشتر چلانا شروع کردیئے ہیں پہلے عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل نے اے آر وائی کے ایک پروگرام میں قابل اعتراض گفتگو کی جس کی وجہ سے انہیں گرفتار ہونا پڑا شکر ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے ان کے جرم کو بخش دیااگر شہباز گل کا تعلق بلوچستان یا وزیرستان سے ہوتا تو نہ جانے ان کا کیا حشر ہوتا اس کے بعد بلکہ حال ہی میں سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر اعظم سواتی نے ایک شخصیت کا نام لیکر انہیں ہدف تنقید بنایا انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا لیکن عدلیہ نے انصاف دے کر اعظم سواتی کی ضمانت منظور کرلی سواتی نے جو کچھ کہا تھا عمران خان نے اس کا دفاع کرتے ہوئے برملا کہا تھا کہ ایک جمہوری ملک میں ایک شخصیت پر تنقید اتنا بڑا جرم نہیں اعظم سواتی جیسی شخصیت کو جیل میں ڈالا جائے دلچسپ امر یہ ہے کہ عمران خان نے دونوں گرفتاریوں کے بعد یہ الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف کے دونوں رہنماﺅں کے کپڑے اتار کر انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا شہباز گل کی حدتک الزام لگایا جاسکتا ہے اعظم سواتی جس کی عمر 76 سال ہے اور وہ بزرگی کی حد کراس کرچکے ہیں سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان کے ساتھ یہ بہیمانہ عمل کیسے ہوسکتا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان ہر مسئلہ کو بہیمانہ شکل دے کر سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں مثال کے طور پر عمران خان کسی موت پر تعزیت کےلئے نہیں جاتے لیکن جونہی ارشد شریف کے قتل کی اطلاع ملی تو وہ کسی تاخیر کے بغیر مرحوم کے گھر پہنچ گئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے لانگ مارچ کو گرمانے کےلئے اس مسئلہ سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور کبھی یہ تسلیم نہیں کریں گے ان کی موت کینیا پولیس کی گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی شیخ رشید نے یہاں تک کہا کہ ارشد شریف کے قتل کو دوسرا رخ دیا جارہا ہے جن ایجنٹوں نے انہیں قتل کیا وہ پولیس پر الزام لگاکر غلط تاثر دے رہے ہیں ایک صحافی کا غریب الوطنی میں قتل بے حد افسوسناک ہے لیکن اس سے سیاسی فائدہ اٹھانا اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے ارشد شریف کے ساتھی اینکر صابرشاکربھی ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں کئی اور صحافی بھی خطرات سے دوچار ہیں خدا خیر کرے لیکن پاکستان میں یہ لکیر موجود نہیں ہے کہ جس کے کراس کرنے کے بعد کوئی صحافی رہتا ہے کہ نہیں جو لوگ سیاسی جماعتوں کے آرگن یا ترجمان بن کر کام کررہے ہیں انہیں پیشہ ور صحافیوں سے الگ سمجھا جانا چاہئے مثال کے طور پر ہم نیوز کی ایک خاتون اینکر شفایوسفزئی نے عمران خان کے انٹرویو کے دوران سوالات کم اور اپنے خیالات کا اظہار زیادہ کیا وہ کسی طور پر بھی صحافی معلوم نہیں ہورہی تھیں بلکہ عمرانی کلٹ کی ایک سرگرم کارکن دکھائی دے رہی تھیں بدقسمتی سے پی ایف یو جے اور سی پی این ای نے بھی یہ طے نہیں کیا کہ صحافی کون ہیں اور سیاسی جماعتوں کے آلہ کار کارکن کون ہیں چونکہ عمران خان نے سیاست اور صحافت سمیت معاشرے کے ہرطبقے کو تقسیم کیا ہے اس لئے آنے والے وقتوں میں تصادم محاذ آرائی وشنام طرازی اور بدکلامی میں مزید اضافہ ہوگاعمران خان کا مشن ہے کہ اقتدار پر صرف انہی کا حق ہے اگر وہ اقتدار میں نہیں تو سب گڑ بڑ ہے اور وہ کسی کو چلنے نہیں دیں گے چاہے وہ ادارے کیوں نہ ہوں جنہوں نے عمران خان کو اقتدار میں لانے کےلئے باجوہ کے بقول غیر معمولی جتن کئے وہ موجودہ حکومت کو گرانے کےلئے ایک لانگ مارچ کرنا چاہتے ہیں لیکن دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں وہ حالات کو بہت جلد پلٹانا بھی چاہتے ہیں لیکن نئی تقرری سے خوفزدہ بھی ہیں وہ آنے والے سے بھی صلہ رحمی کے طالب ہیں حالانکہ انہیں آنے والے انتخابات کا انتظار کرنا چاہئے اگر موجودہ حکومت کی یہی کارکردگی رہی تو تحریک انصاف کی کامیابی یقینی ہے بے شک عمران خان تحریک انصاف کی پولٹ بیورو بناکر چینی کمیونسٹ پارٹی کی طرح وزارت عظمیٰ یا صدارت کی معیاد تاحیات کیوں نہ کردیں لیکن عمران خان موجودہ نظام میں مجبور ہیں کیونکہ وہ صدر شی جن پنگ کی طرح اپنے متحارب رہنماﺅں کا صفایا نہیں کرسکتے ایک حیران کی بات یہ ہے کہ حامد میر مسلسل مارشل لاءکے نفاز کے خطرے کا اظہار کررہے ہیں حالانکہ بظاہر اس کی گنجائش کم ہے شاید ان کا اشارہ عمران خان کی طرف ہے جو حالات کو ایسے مقام پر لے جانا چاہتے ہیں کہ مارشل لاءکے سوا اور کوئی حل موجود نہ ہو۔
نواب اکبر خان کی شہادت کے بعد محترمہ عاصمہ جہانگیر کوئٹہ تشریف لائی تھیں وہ بلوچستان میں ظلم و زیادتیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لے رہی تھیں کوئٹہ پریس کلب میں ان سے ملاقات ہوئی میں نے کہاکہ محترمہ 70 کی دہائی میں ہم بلوچستان کا مسئلہ آپ کے والد محترم ملک غلام جیلانی کے سامنے پیش کرتے تھے اس کے بعد سے آج تک کئی بار یہ مسئلہ آپ کے سامنے پیش کرچکے ہیں لگتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ہم یہ معاملہ آپ کی صاحبزادیمنیزےجہانگیر کے سامنے پیش کریں گے لیکن بلوچستان کا مسئلہ اسی طرح اپنی جگہ موجود رہے گاقدرت کا کرنا دیکھئے واقعی میں ریاست کے تمام مظلوموں نے حالیہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں اپنے مسئلے منیزے جہانگیر کے گوش گزار کئے ہیں اس فورم کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہاں ایسے لوگوں کو اظہار خیال کا موقع دیا گیا جن پر پابندیاں عائد ہیں مثال کے طور پر منظور پشتون گلگت کے بابا جان اور دیگر لوگ اگرچہ سردار اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک نے بھرپور اظہار کیا لیکن میرے خیال میں اس رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں اختر مینگل نے تو حد کردی اس سے زیادہ تو کوئی نہیں بول سکتا اور اس بے یاکانہ ظریقہ سے اپنے مسئلہ کو پیش نہیں کرسکتا لیکن ایک کمی یہ ہے کہ اگر اختر مینگل اتنی دہائی اور اتنی فریادوں کی جگہ اگر حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرتے تو یہ حکومت یا تو کچھ کرتی یا گرجاتی سردار اختر اور ڈاکٹر مالک مفاہمت اور مزاحمت کو ساتھ لیکر چل رہے ہیں وہ تعریف تو مزاحمت کی کرتے ہیں لیکن عملی طور پر مفاہمت سے کام لے رہے ہیں۔
سردار اختر کا یہ کہنا کہ اگر برابری کی بنیاد پر چلو گے تو ہم تمہارے ساتھ ہزاروں میل چلیں گے لیکن اگر غلام سمجھو گے تو ہم نے پہلے بھی اس کے خلاف مزاحمت کی ہے اس وقت بھی کررہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے لیکن غلامی قبول نہیں کریں گے اصولی اور معنوی طور پر یہ بات درست ہے لیکن منطقی بات زمینی حقائق کے مطابق چلنا ہے انہوں نے مسنگ پرسنز کا مسئلہ نہایت پرسوزطریقہ سے پیش کیا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ طویل عرصہ سے جدوجہد کرنے والی سمی دین بلوچ کو منتظمین نے بات کرنے نہیں دی جو عاصمہ جہانگیر کانفرنس کی روح کے منافی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ پنجاب کے دل لاہور میں ہونے والی کانفرنس کے منتظمین کو بھی اپنی مجبوریوں اور ریڈلائن کا بخوری علم تھا وہ بھی ایک حد سے آگے جانا نہیں چاہتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں