بلوچستان میں اسلحے کی حکمرانی ہے اس لیے صحافی نشانے پر ہیں، رپورٹ : عبدالکریم
خودکش حملہ آور کوئٹہ کے سنڈیمن ہسپتال کے شعبہ حادثات میں چھپا ہوا تھا ۔ ہم لوگ محفوظ مقام کے تلاش میں تھے کہ ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی ،دھماکہ بے حد شدید تھا میں نے ایک دیوار کا سہارا لیکر خود کوبچایا۔ لیکن آدھے گھنٹے تک میں سہما ہوا تھا اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے۔ رونے دھونے اور درد سے زمین پر گرے زخمی کرا رہے تھے ، وہ مدد کیلئے پکار رہے تھے ۔ ساتھ میں بے جان پڑے کچھ لوگوں کی سانسیں وجود سے پرواز کرچکی تھیں۔ جب میری نظر ہمارے ساتھی سما ٹی وی کے کیمرہ مین ملک عارف پر پڑی وہ بھی اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔ محمدغضنفر جس کا تعلق بول ٹی وی سے ہے وہ اس واقع کو بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ ان کے چہرے پر ماضی کی تلخ اور بھیانک واقعات کی محترک تصاویر گردش کرنے لگیں۔ یاد رہے محمدغضنفر گزشتہ ۱۳ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کئی قومی ٹی وی چینلز میں کام کیا ہے۔
غضنفر کے مطابق اس واقعے میں کئی لوگوں نے اپنی جانیں دیں اور اس کے ساتھ زخمیوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ زخمیوں میں اب تک ٹی وی کے سینئر صحافی نورالہی بگٹی ، جیوکے بیورو چیف سلمان اشرف اور ۹۲نیوز کے بیوروچیف خلیل بھی شامل تھے۔
غضنفر کے بقول: اس واقعے کے بعد وہ کئی مہینوں تک ڈراو¿نے خوب دیکھتا رہا۔ کبھی کھبی اسے ایمبولینس اور زخمیوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔
غضنفر بتاتے ہیں کہ معاملہ یہاں تک نہیں رکا دو ہزار گیارہ میں یوم القدس کے جلوس میں دھماکہ ہوا۔ دھماکے کے بعد مشتعل مسلح افراد نے ان پر ان کے کیمرہ مین خرم پر گن نکالی اور دنیا ٹی وی کے ڈی ایس این جی پر فائرنگ کی لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گئے۔ لیکن ڈی ایس این جی کے شیشے ٹوٹ گئے۔ ان کے مطابق جب وہ وہاں سے بھاگے تو کوئٹہ کے لیاقت بازار کے قریب ان پر پھر پیچھے سے فائرنگ کی گئی۔
یاد رہے دو ہزار دو سے لیکر اب تک بلوچستان میں بلوچستان یونین اف جرنلسٹ کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ۴۱ صحافی بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ جن میں ۲۷ صحافی باقاعدہ طور پر ٹارگٹ کیے گئے ہیں ۔ بلوچستان میں صحافیوں کیلئے سب سے مشکل دور ۲۰۰۵ سے لیکر ۲۰۱۶ تک رہا اس دورانیے میں بلوچستان کے بہت سے صحافی بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔
جلال نورزئی سما ٹی وی کے بیوروچیف اورسینئر صحافی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں کام کرنے والے صحافیوں کو ہمہ وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے مطابق بلوچستان میں جب شورش برپا ہوئی تب بلوچستان کے صحافی خطرات سے دوچار ہوئے۔ وہ کالعدم تنظیموں کو صحافیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ خضدار میں بعض صحافی انھیں کالعدم تنظیموں نے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے۔
جلال نورزئی کے مطابق ماضی میں خضدار ، آواران ، پنجگور،قلات اور کوئٹہ صحافیوں کیلئے محفوظ شہر نہیں تھے۔
جلال کے میڈیا ہاو¿سزپرتنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچستان کے صحافیوں کیلئے دوران ڈیوٹی جان کے تحفظ کی باقاعدہ ٹریننگ آج تک نہیں دی گئی۔
اقبال خٹک فریڈم نیٹ ورک کے سربراہ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بنیادی طورپر جو شخص صحافی کو قتل کرتا ہے وہ تو قانون کے نظرمیں سب سے بڑا ملزم ہے۔ لیکن اس کے ساتھ صحافتی ادارے اور حکومت بھی اس کے ذمہ دار ہے۔ کیونکہ انہوں صحافیوں کے تحفظ کیلئے بین الاقوامی اصولوں کی مطابق قوانین نہیں بنائے ہیں۔
ان کے مطابق بلوچستان میں ٹوپک ( کلاشنکوف) کی حکمرانی ہے اس لیے بلوچستان میں صحافی نشانے پر ہیں۔
اقبال خٹک کے مطابق بلوچستان میں صحافیوں کے تحفظ کیلئے ایسا قانون موجود نہیں ہے جو صرف ان کے تحفظ کیلئے خاص بنایا گیا ہو۔ ان کے مطابق انہوں نے بلوچستان کے ارکان اسمبلی سے مشاورتی اجلاس میں مذکورہ اراکین کو تجویز دی کہ سندھ اور وفاق کی طرز پر بلوچستان میں بھی صحافیوں کے تحفظ کیلئے مخصوص قانون بنائیں۔
اقبال خٹک سمجھتے ہیں کہ بلوچستان ایک شورش زدہ علاقہ ہے یہاں پر قانون کی حکمرانی بہت کمزور ہے۔ اس لیے یہاں پر صحافیوں کونشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ صحافتی اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ صحافیوں کو تحفظ کی بابت تربیت فراہم کریں۔ اس کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ صحافی کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے وہ رسک نہ لے وہ اس بات کو جانچ لے کہ وہ جو رسک لے رہا ہے کہ اس کا ادارہ اس رسک کیلئے تیار ہے۔
اقبال خٹک کی طرح بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے جنرل سیکرٹری منظوراحمد بھی صحافیوں کی ہلاکت کے عوامل خطے کی صورتحال اور شورش زدہ علاقوں میں رپورٹنگ کی تربیت کے نہ ہونے کو قرار دیتے ہیں۔ منظور احمد نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان میں قتل ہونے والے کسی بھی صحافی کے قاتل کو سزا نہیں ہوئی ہے۔ ان کے بقول یہ بدقسمتی ہے کہ بلوچستان میں صحافیوں حملے کرنےوالے ذمہ دارواں تک اب تک قانون نہیں پہنچا ہے۔
منظور احمد کے بقول : ریاست اور حکومت پابند ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے اور صحافی بھی اس ملک کےشہری ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کو تحفظ دے۔ بلوچستان میں جب حالات خراب ہوئے اور کچھ مسلح تنظیمں سرگرم ہوگئیں تو اس وقت بلوچستان میں صحافی نشانہ بننا شروع ہوئے۔ منظوراحمد کہتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں مختلف این جی اوز کے ساتھ ملکر جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ پر کام کررہے ہیں اس کا ڈرافٹ بھی تیار کرلیا گیا ہے۔ اب ہم اسےبلوچستان اسملبی کے اراکین کے حوالے کریں گے۔ اور انہوں نے ہمیں یقین دہانی بھی کروائی کہ وہ اسے اسمبلی سے پاس کرکے صوبے میں لاگو کریں گے ۔
دوسری طرف حکومت بلوچستان کی خاتون ترجمان فرح عظیم شاہ سمجھتی ہیں کہ بلوچستان میں اب حالات بہت بہتر ہیں۔ ان کے مطابق عام عوام کے ساتھ ساتھ صحافی برادری کو بھی اس بات کا احساس ہے۔
فرح عظیم شاہ کے بقول : ماضی قریب میں سماج دشمن اورتخریبکار عناصر نے دہشت و وحشت کی فضا قائم کرنے کیلئے قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ نہ صرف صحافی بلکہ اساتذہ ، انجینئرز اور عام عوام سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگ ان کے نشانے پر تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ صحافتی شعبے کو اس لیے خاص طور پر نشانہ بنایا گیا کہ وہ حقیقت پر مبنی رپورٹنگ نہ کرے اور انکے نام نہاد ایجنڈے پر کام کرے۔ ان حالات کی وجہ سے صحافی برادری عدم تحفظ کی شکار ہوئی یہاں تک کی بعض علاقوں میں پریس کلبز بند ہوگئے۔ان کے بقول حکومت نے حفاظتی اقدامات کے بعد بند تمام پریس کلب فعال بنائے اور میڈیا ہاوسز کو خصوصی سیکورٹی فراہم کی۔


