آج بازار میں پابہ جولان چلو

تحریر : انور ساجدی

دفتر کے لئے نکلا تو راستہ بند تھا، آگے پیپلز پارٹی والوں کی کوئی ریلی جارہی تھی جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہوگئی اور کافی انتظار کے بعد آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے۔ میں نے سوچا کہ پاکستان کی جو سیاسی پارٹیاں ہیں، ادارے ہیں یہ آئے دن بلکہ ہر روز خلق خدا کے لئے کوئی نہ کوئی مشکل پیدا کرتے ہیں۔ حکومت ہو یا اپوزیشن انہوں نے عام آدمی کو پرسکون زندگی اور آبرو مندانہ طریقے سے وقت گزارنے کے لئے کچھ نہیں سوچا۔
اس وقت عالم یہ ہے کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے چار ارب ڈالر رہ گئے ہیں جو 25 دن کی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔ اس کے بعد کیا ہوگا، اسحاق ڈار کی طفل تسلیوں کے سوا اور کوئی کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ مو¿قر روزنامہ نے گزشتہ روز ایک کارٹون شائع کیا جس میں دکھایا گیا ہے کہ اونٹوں پر ڈالر لادے ہیں اور ایک پانڈا مہار پکڑے پاکستان کی طرف آرہا ہے۔ یعنی فوری امداد چین سے مل سکتی ہے جبکہ سعودی کارواں ابھی تک چلا ہی نہیں۔ آرمی چیف کے دورے کے نتیجے میں شاید وہاں سے بھی ڈالروں کا قافلہ چل پڑے لیکن یہ علاج اسپرین جیسا ہے جبکہ بیماری ناسور ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ کاروبار کا پہیہ جام ہے، برآمدات میں کمی ہورہی ہے۔ ریکوڈک سمیت بڑے اثاثے بک چکے ہیں۔ اتنی بڑی ریاست کو چلانے کے لئے بظاہر کوئی امید افزا نظام دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ادھر سے عمران خان مسلسل بحران اور مسائل پیدا کررہے ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے تاکہ ان کا اقتدار میں آنا آسان ہوجائے۔ انہوں نے فی الحال سب سے بڑے صوبہ پنجاب کو میدان جنگ بنا دیا ہے۔ ان کا دباﺅ ہے کہ پرویز الٰہی کسی تاخیر کے بغیر اعتماد کا ووٹ حاصل کرے تاکہ اسمبلی کی تحلیل ممکن ہوجائے لیکن پرویز الٰہی جانتے ہیں کہ انہیں اکثریت حاصل نہیں ہے اس لئے وہ لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔ جس پر عمران خان نے دھمکی دی ہے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوئی تو تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی اجتماعی استعفے دے دیں گے۔ اس بحران نے پنجاب اس کی معیشت اور سارے کاروبار کو جامد کردیا ہے۔ ملک کی 60فیصد صنعتیں پنجاب میں ہیں جو روزانہ بند ہورہی ہیں، بے روزگاری اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔ عمران خان جو کبھی دائیں ٹانگ پر پلستر چڑھاتے ہیں اور کبھی بائیں ٹانگ پر، فرانزک رپورٹ نے تصدیق کی ہے کہ انہیں کوئی گولی نہیں لگی بلکہ لوہے کے ٹکڑے لگے ہیں۔ ان کا ڈرامہ کافی مہینوں سے جاری ہے اور وہ ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو دوبارہ اقتدار ملنا آسان کام نہیں ہے۔ آئندہ انتخابات تک انہیں نااہلی اور دیگر سزاﺅں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کی جماعت میں شدید اختلافات ہیں اور ایک تہائی ارکان پی ٹی آئی چھوڑنے کے لئے تیار ہیں۔ اس مقصد کے لئے حکام بالا نے پنجاب میں ایک نئی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو پناہ فراہم کی جائے گی اور کوشش کی جائے گی کہ آئندہ انتخابات میں یہ سودے بازی کے لئے استعمال ہو۔ حال ہی میں عمران خان نے کہا تھا کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو لانے کے لئے ” نیوٹرلز“سیاسی انجینئرنگ کررہے ہیں لیکن حکام نے اس منصوبہ میں یا اپنی انجینئرنگ میں تھوڑی سی تبدیلی کرلی ہے، ان کی خواہش ہے کہ تحریک انصاف پنجاب میں دوسری نہیں بلکہ تیسری پارٹی بن جائے تاکہ وہ بلیک میلنگ کی پوزیشن میں نہ ہو۔ اس لئے اگر الیکشن ہوئے تو پی ٹی آئی تنہا اپنی طاقت کے بل بوتے پر الیکشن لڑے گی جبکہ ن لیگ اور پی پی کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑے گی جس سے یہ ہوگا کہ پیپلز پارٹی کی پوزیشن 2018سے قدرے بہتر ہوجائے گی لیکن ایسا انتظام ہوگا کہ مرکز میں کوئی بھی جماعت قطعی اکثریت حاصل نہ کرسکے۔ اس حکمت عملی سے پی ٹی آئی کو نقصان پہنچے گا اور غالباً یہ کوشش کی جائے گی کہ اس کی نشستوں کی تعداد 2013سے زیادہ اور 2018 سے کم ہو۔ حکام بالا پانچ سال کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عمران خان صحیح حکمران نہیں، ان میں صبر و تحمل بردباری اور سیاسی فہم و ادراک کی کمی ہے۔ وہ ایک جذباتی انسان ہیں اور خود غرض اتنے ہیں کہ کسی کو بھی اپنے مفاد کے لئے قربان کرسکتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں انہوں نے باجوہ کے ساتھ کیا ہے جبکہ ماضی میں جہانگیر ترین، علیم خان بابر ، جسٹس وجیہہ اور حامد خان کو اپنے مفا دکے لئے قربان کرچکے ہیں۔
عمران خان جیسے خود سر گھوڑے کو قابو میں لانے کے لئے بہت جتن کرنا پڑرہے ہیں۔ اس کے لئے عمران خان کے لئے اپنا لاگو کردہ نسخہ آزمایا جارہا ہے یعنی موصوف کے ذاتی کردار میں جو خرابیاں ہیں ان کو اجاگر کیا جارہا ہے، ان کی شخصیت کا جو منفی پہلو تھا ان کی آڈیو ریلیز کردی گئی ہے جبکہ 19ویڈیوز ریلیز کرنے کی تیاری فائنل میں ہے۔ اگر عمران خان نے اندر کھاتے معافی نہیں مانگی اور اچھے چال چلن کی ضمانت نہ دی تو یہ گندی ویڈیوز جاری کردی جائیں گی۔ اگرچہ تحریک انصاف کے حلقوں کا کہنا ہے کہ اس کے مداحوں اور چاہنے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ایسا نہیں ہے ان کے کردار کے حوالے سے جاری شدہ آڈیوز کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں ڈینٹ پڑ چکا ہے اور انہوں نے باجوہ کے سوال پر یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ ماضی میں پلے بوائے رہ چکے ہیں لیکن ان کی بڑھاپے کی آڈیوز اور ویڈیوز سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے جوانی کی عادات و اطوار اور اسٹائل کو بڑھاپے میں بھی برقرار رکھا ہے۔ بلکہ اس میں کچھ اضافہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ آئندہ سال جب انتخابات کا وقت قریب آئے گا تو ان کی بے شمار کمزوریوں کو مزید اجاگر کیا جائیگا۔ جبکہ پنجاب کے حالیہ بحران میں پرویز الٰہی سے کہہ دیا گیا ہے کہ اگر عمران خان اپنی ضد پر اڑے رہے تو ان کا دوسرا بندوبست کردیا جائیگا یعنی یہ طے ہے کہ حکام بالا نے سیاسی انجینئرنگ ترک نہیں کی ہے اور ان کا پکا ارادہ ہے کہ وہ آئندہ بھی مداخلت جاری رکھیں گے۔ عجیب بات ہے کہ اس سلسلے میں ن لیگ کی بجائے زرداری سے قرابت داری زیادہ ہے اور یہ تاثر پختہ ہوچکا ہے کہ زرداری راز کو راز رکھتے ہیں جبکہ ن لیگی ہر بات کو افشا کردیتے ہیں جیسا کہ عدم اعتماد کی تحریک لانے کے موقع پر باجوہ نے سب سے پہلے زرداری کو اعتماد میں لیا تھا اور انہیں گرین سگنل دیا تھا۔یہ عمل آئندہ بھی جاری رہےگا۔ بلوچستان میں بید گورننس اور مالی بے قاعدگیوں کی وجہ سے زرداری سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ آئندہ اس صوبے کا انتظام سنبھالیں تاکہ کچھ باقاعدگی آجائے۔ یہ وجہ ہے کہ باپ پارٹی کے بعض اراکین اور دیگر موسمی پرندے دھڑا دھڑ پیپلز پارٹی میں شامل ہورہے ہیں۔ یہ تو پتہ نہیں کہ جام صاحب، بھوتانی برادران اور قدوس بزنجو کا فیصلہ کیا ہوگا لیکن وہ ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔ عین ممکن ہے کہ جام صاحب پیپلز پارٹی کی بجائے ن لیگ کا رخ کریں کیونکہ پیپلز پارٹی میں گنجائش سے زیادہ نووارد آرہے ہیں۔ جبکہ جام صاحب پہلے بھی مسلم لیگ ن کو رونق بخش چکے ہیں اور نواز شریف کی کابینہ میں وزیر مملکت رہ چکے ہیں، اس لئے ان کے لئے وہاں جانا اچنبھے کی بات نہیں ہوگی۔ ن لیگ جو پہلے کہتی تھی کہ وہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو اپنی صفوں میں شامل نہیں کرے گی لیکن وقت کے ظالم دہارے نے اس جماعت کو بھی تبدیل کردیا ہے یعنی اس وقت کسی بھی جماعت کا کوئی نظریہ نہیں ہے، سب کا نظریہ اقتدار کا حصول ہے جبکہ ان جماعتوں کے رہنما بھی کسی نظریہ سے وابستہ نہیں ہیں بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ آسودگی حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اس بات کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ ان کی لگژری لائف میں کوئی سختیاں آئیں۔
ایک اور عجیب بات ریاست کے طرزعمل میں ہے۔ عمران خان وہ رہنما ہیں کہ انہوں نے ہر ریاستی ادارے کو چیلنج کیا ، فوج کے خلاف مہم چلائی ، لیکن طویل عرصے سے ان کے جارحانہ رویہ کو برداشت کیا جارہا ہے حالانکہ ان کے لانگ مارچ کے دوران تشدد ہوا۔ گزشتہ سال 25مئی کو گھیراﺅ، جلاﺅ اور توڑ پھوڑ ہوئی، لانگ مارچ کے دوران فائرنگ بھی ہوئی لیکن سب کچھ نظر انداز کیا جارہا ہے۔ جبکہ گوادر کے حسین واڈیلہ نے مقامی لوگوں کے بنیادی حقوق کے لئے ایک پرامن تحریک چلائی تھی لیکن انہیں زنجیروں میں جکڑ کر اور پایہ جولاں کرکے کوئٹہ لایا گیا، حالانکہ انہوں نے کوئی تشدد اور غیر قانونی کام نہیں کیا تھا۔ اسی طرح عدالتوں سے ضمانت کے باوجود جنوبی وزیرستان کے ایم این اے علی وزیر طویل عرصہ سے جیل میں ہیں لیکن ریاست کے رویہ میں کوئی نرمی نہیں آرہی ہے۔ ان کی رہائی اور ٹی ٹی پی کی جانب سے پرتشدد کارروائیوں کے خلاف وزیرستان کے لوگ کئی روز سے سراپا احتجاج ہیں لیکن ان کی آواز پر نہ تو نام نہاد قومی میڈیا توجہ دیتا ہے اور نہ ہی حکام بالا کو اس کی کوئی پرواہ ہے۔ حالانکہ گڈ طالبان، بیڈ طالبان اور اسٹریٹجک ڈیپتھ کے فلسفے کب کے باطل ہوچکے ہیں، اس وقت تو وزیرستان اور ریاست کا مفاد ایک نظر آتا ہے لیکن اس کے باوجود عوام کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے۔ وزیرستان سے لے کر گوادر تک لوگوں کی جو پرامن تحریک چل رہی ہے اسے درخور اعتنا سمجھا نہیں جارہا ہے۔ حالانکہ حالات ایسے ہیں کہ ریاست دہشت گردی کے خلاف ایک اور جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی جبکہ اس کے وسائل بہت محدود ہیں۔ چار ارب ڈالر کے ذخائر رہ گئے ہیں اتنے ڈالر تو دنیا کے چند غریب ترین ممالک کے پاس بھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ریاستی اداروں کے اندر جو بلا کا اعتماد ہے وہ کس بنیاد پر ہے۔ کیا اس کے پاس خفیہ وسائل کا کوئی انبار ہے یا یہ محض خوش فہمی ہے، اگر یہ خوش فہمی ہے تو بہت برے اور کڑے دن آنے والے ہیں۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں