خون کی مہک

تحریر:انورساجدی

کوئٹہ میں ڈائیلاگ کے عنوان سے حاجی میر لشکری رئیسانی نے ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس میں سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے ’’دراز قد‘‘ رہنما شاہد خاقان عباسی، سابق متروکہ وزیر خزانہ اور اسی جماعت کے ناراض رہنما مفتاح اسماعیل اور پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر اور نئی جائے پناہ کے متلاشی مصطفی نواز کھوکھر نے خطاب کیا۔ اگرچہ یہ معلوم نہیں کہ اس نشست کا مقصد کیا تھا اس سے کس قسم کے سیاسی اور تزویراتی نتائج حاصل کرنے تھے لہٰذا عمومی طور پر سیاسی رہنمائوں کے اس ڈائیلاگ کو سنجیدہ نہیں لیا جائیگا، البتہ میڈیا میں یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ ’’ناراض‘‘ سیاسی رہنما شاید ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مفتاح اسماعیل، حاجی لشکری رئیسانی اور مصطفی نواز کھوکھر کی حد تک تو یہ بات درست ہے کیونکہ وہ فی الوقت آزاد ہیں اور انہیں نئے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے لیکن شاہد خاقان کو اچھی طرح علم ہے کہ ن لیگ چھوڑ کر راندئہ درگاہ ہوجائیں گے۔ گزشتہ انتخابات میں وہ اپنے آبائی حلقہ سے تحریک انصاف کے ہاتھوں شکست کھاگئے تھے۔نواز شریف نے ایک اور نشست پر ان کی کامیابی کو ممکن بنایا تھا چنانچہ وہ اس طرح کا رسک کبھی نہیں لیں گے جو ان کے ہم علاقہ سیاستدان چوہدری نثار علی خان نے لیا تھا اور اب تک خوار وزار پھر رہے ہیں گوکہ پاکستان میں سیاسی جماعت کی تشکیل کوئی مشکل بات نہیں ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ ’’اوپر کی نظر‘‘ نیک ہونی چاہئے جس کی مثال بلوچستان کی حکمران جماعت باپ کی تشکیل ہے اور کون نہیں جانتا کہ راتوں رات اس کی تشکیل کیسے ہوئی تھی اس لئے نامور ٹریڈ یونین لیڈر شہزادہ ذوالفقار نے پھبتی کستے ہوئے کہا کہ پہلے باپ نامی پارٹی بنی تو آئندہ ماں کے نام سے بھی کوئی جماعت بن سکتی ہے۔ پورے سیمینار میں صرف دو اصحاب نے سنجیدہ گفتگو چھیڑی، ایک اپنے گوادر کے حسین واڈیلہ اور دوسرے شہزادہ ذوالفقار نے جبکہ نواب محمد اسلم رئیسانی نے اپنے مخصوص انداز خطابت سے محفل کو کشت زعفران بنادیا۔
نواب صاحب نے فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اتنے نہیں ڈرتے جتنے فوج سے ڈرتے ہیں، انہوں نے جنرل مشرف کے دور میں مہرگڑھ پر بلڈوزر چلانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب جنرل عبدالقار بلوچ نے یہ کام کرلیا تو ان سے کہا گیا تھا بھئی یہ کام تو تمہارے بلوچ جرنیل نے کیا ہے اس پر میں نے کہا کہ جس طرح ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے جعلی ہو یا اصلی اسی طرح جرنیل جرنیل ہوتا ہے چاہے وہ بلوچ ہو یا پنجابی۔ نواب صاحب نے حقیقت سے قریب تر یہ بات بھی کہی کہ ہندوستان کا باپ بھی بلوچستان میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ یہاں پر بلوچ آزادی کی تحریک چلارہے ہیں، اگر حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ تشدد سے کام لیکر یا لوگوں کو غائب کرکے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں تو ایسا نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بلوچ ہیں، ہم پر را کا ایجنٹ ہونے کا الزام غلط ہے، غالباً جب نواب صاحب قاتلانہ حد تک سچی باتیں کررہے تھے تو وہ بھول گئے تھے وہ ان دنوں قوم پرستی کی سیاست ترک کرکے ایک دینی جماعت میں شامل ہوچکے ہیں۔
مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے، حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ 70 فیصد نوجوان ملک چھوڑ کر باہر جانا جبکہ بلوچستان کے بیشتر نوجوان پہاڑوں پر جانا چاہتے ہیں۔
حسین واڈیلہ نے کہا کہ ہم پرامن طریقے سے اپنے بنیادی حقوق کیلئے تحریک چلارہے ہیں لیکن تشدد کے ذریعے اسے بھی کچلنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جب میرے بچوں پر ظلم ہو اور انہیں مسنگ کیا جائے تو یہاں پر کبھی زندہ باد کانعرہ نہیں لگے گا۔
شہزادہ ذوالفقار نے سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب بلوچستان اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے اپنے حقوق مرکز کو منتقل کئے تو کسی نے احتجاج نہیں کیا، سیندک کو حوالے کردیا گیا لیکن ہم نے کوئی احتجاج نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ کسی دن مرکز گوادر کو وفاقی تحویل میں لے گا اور اس علاقے کو اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے انڈر کردے گا تو کیا ہوگا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مسنگ پرسنز کا معاملہ ہمارے لئے باعث شرمندگی ہے، لوگوں کو یاد ہو جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے تو مسنگ پرسنز کے معاملے پر بات نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کا تعلق اداروں سے ہے، یہ بعدازوقت پشیمانی اور شرمندگی کا اظہار سمجھ سے بالاتر ہے۔
اس وقت پاکستانی سیاست بلکہ بلوچستانی سیاست اور زمینی حقائق ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے۔ نواب رئیسانی نے حقائق کی درست ترجمانی کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ مرض کا اصل علاج کیا ہے، وہ بہت محترم اور سیاسی رہنما ہیں لیکن معذرت کے ساتھ انہوں نے ان تضادات کا ذکر نہیں کیا جو پارلیمانی سیاست اور اس سے بلوچ نوجوانوں کے اختلاف کی صورت میں کارفرما ہے، وہ خود پانچ سال تک وزیراعلیٰ رہے ہیں اور آئندہ انتخابات میں ایک بار پھر وزیراعلیٰ بننے کے امیدوار ہیں،وہ بتائیں کہ وہ کیا بہتری لیکر آئیں گے یا وزیراعلیٰ کا منصب محض ٹائم پاس کیلئے ہوگا، اب تو محترم نواب صاحب ایک دینی جماعت کے ڈسپلن کے پابند ہیں جو پاکستانی سیاست کے اسٹیک ہولڈر ہیں۔
زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ بلوچ عوام نے اپنا دل اور امیدیں اٹھالی ہیں اور وہ اس وقت پارلیمانی سیاست سے مایوس ہیں، انہیں سروکار نہیں کہ کون وزیر اور کون مشیر بنتا ہے، ان کے خیال میں چہروں کی تبدیلی سے کوئی تبدیلی رونما ہونے والی نہیں ہے جہاں تک انتخابات کا تعلق ہے تو یہ ہمیشہ سے ڈھکوسلا رہے ہیں اور ایک مذاق کی حیثیت رکھتے ہیں، صرف ان لوگوں کو کامیاب قرار دیا جاتا ہے جو موجودہ کارروائیوں کو درست سمجھتے ہیں اور مرکز کے ہر عمل کو جائز اور اس پر لبیک کہنے کے روادار ہیں۔
17سال سے بلوچستان ایک بڑے المیہ سے دوچار ہے، مسنگ پرسنز کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، تصادم میں تیزی آرہی ہے لیکن اب تک کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ صحیح صورتحال کی تصویر کشی کرسکے چنانچہ اس وقت نوجوان تمام سیاسی جماعتوں سے بے زار ہیں اور انہوں نے اپنے الگ راستے کا انتخاب کیا ہے۔ عوام کس کے ساتھ ہیں سب اچھی طرح جانتے ہیں، یہ کہنا کہ قیادت کا فقدان ہے غلط ہے کیونکہ نوجوانوں کی قیادت بھی موجود ہے اور وہ اپنا لائحہ عمل بھی طے کرچکے ہیں چنانچہ بعض رہنما پہاڑوں پر جانے کا ڈراوا دکھا کر اپنے لئے ایڈجسٹمنٹ مانگتے ہیں، اگر مرکز کسی کو بھی اپنی سرپرستی میں لے تو نوجوانوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ سردار، میرومعتبر اور قبائلی رہنما مرکزی سرکار یعنی قومی اثاثہ کی حیثیت رکھتے ہیں، اپنے قومی اثاثوں کو سنبھالنا ریاست کی ذمہ داری ہے، کس کو کیا منصب دیا جائے یہ ان کے اندرونی بندوست کا معاملہ ہے عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ قلات کے گرینڈ جرگہ کے بعد جو وعدہ خلافی کی گئی وہ بلوچوں کی تاریخ میں مٹھن کوٹ کانفرنس کے بعد سب سے بڑا المیہ تصور کیا جاتا ہے لہٰذا جو لوگ اس وقت میدان سیاست میں موجود ہیں کسی کو ان سے کوئی توقع، کوئی امید اور کسی اچھائی کا آسرا نہیں ہے۔
جو جنگ یا جدوجہد ہے وہ پارلیمانی سیاسی رہنمائوں کے کنٹرول میں نہیں ہے، اس کا فیصلہ دونوں میں سے ایک فریق کی شکست کے نتیجے میں ہوگا، ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے، آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا لہٰذا بلوچوں کا رونا روکر اپنے لئے منصب طلب کرنا خودغرضی کی انتہا ہے، موجودہ ڈیجیٹل دور میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے، سب کچھ الف بے نقاب ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں