ایشیاء کا مردِ بیمار

تحریر: انورساجدی

ایران نے پاکستانی حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ زرداری کے دور میں گیس پائپ لائن بچھانے کا جو معاہدہ ہوا تھا پاکستان اپنے حصے کی پائپ لائن بچھائے ورنہ 16 ارب ڈالر جرمانہ ادا کرنے کیلئے تیار رہے، اگر ایران واقعی سنجیدہ ہوا اور اس نے ثالثی کی عالمی عدالت سے رجوع کیا تو ریکوڈک کی صورتحال سامنا کرنا پڑے گا اور پاکستان پر ایک ناگہانی افتاد پڑے گی کیونکہ اس وقت پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہے، اس کے زرمبادلہ کے کل ذخائر صرف 3 ارب ڈالر رہ گئے ہیں اس لئے وہ آئی ایم ایف کی من مانی شرائط تسلیم کرنے پر مجوبر ہے، اس صورتحال میں وہ ایران کو دینے کے لئے 16 ارب ڈالر کہاں سے لائے گا، حالانکہ اگر پاکستان ایران سے پائپ لائن کے ذریعے گیس لیتا اور انڈیا کی طرح تیل کی خریداری بھی اسی سے کرتا تو آج دیوالیہ نہ ہوتا، آج صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستانی کرنسی جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک کے مقابلے میں کمزور ہے، باقاعدہ طور پر دیوالیہ ہونے والے ملک سری لنکا کا روپیہ بھی پاکستانی روپے سے طاقتور ہے، پاکستان کے حالات بالکل اسی طرح ہیں جو 1991 میں انڈیا کے تھے، وہاں پر عام انتخابات کے موقع پر اتنے بڑے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر صرف 9 ارب ڈالر رہ گئے تھے۔ راجیو گاندھی کے قتل نے کانگریس کی جیت کو یقینی بنایا تھا جس کے نتیجے میں نرسیما رائو رائو وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے ماہر معیشت ڈاکٹر من موہن سنگھ کو فنانس منسٹر بنایا تھا۔ انہوں نے چند ہفتوں کے دوران زبردست اصلاحات کی تھیں اور انڈیا کی سوشلسٹ یا سرکاری اجارہ داری میں چلنے والی معیشت کو مارکیٹ اکانومی میں تبدیل کردیا تھا۔ من ہوہن سنگھ بعد ازاں اعظم بھی بن گئے تھے، ان کی اصلاحات کی بدولت آج انڈیا دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے اور 2030 تک وہ جرمنی کی جگہ لے کر نمبر 4 معیشت بن جائے گا۔ بدقسمتی سے پاکستان کے پاس کوئی من موہن سنگھ نہیں ہے بلکہ محمد اسحاق ڈار ہے جو نواز شریف کے سمدھی ہونے کی وجہ سے معیشت کی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں۔ بدترین معاشی صورتحال نے ان کی دماغی حالت پر بھی برے اثرات ڈالے ہیں، وہ چند دنوں سے سود سے پاک معیشت کے نفاذ کا عندیہ دے رہے ہیں حالانکہ پاکستان کا ایک ایک بال سود سے بندھا ہوا ہے، تمام غیر ملکی قرضوں پر بھاری سود ادا کرنا پڑرہا ہے۔ اگر سود کے نظام کا خاتمہ آسان ہوتا تو سعودی عرب کرچکا ہوتا، جو معاشی طور پر آزاد اور خود کفیل ہے، پاکستان جیسا تہی دست ملک سود کے خاتمے کا سوچ بھی نہیں سکتا، یہ سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کا ایک سیاسی نعرہ ہے جو اس سے پہلے جے یو آئی لگاتی تھی لیکن وہ اپنے صوبہ پختونخوا میں سود کا نظام ختم نہیں کرسکی حالانکہ 2002 سے 2007 تک پختونخوا میں اس کی حکومت تھی اور اعلیٰ حضرت امیر جماعت سراج الحق صاحب وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز تھے، اتفاق سے دونوں جماعتیں شد ومد کے ساتھ سودی نظام کے خلاف سیاسی نعرے بازی کرتی رہتی ہیں۔ اسحاق ڈار کو اور کچھ نہ سوجھا تو انہوں نے بعض رفاہی اداروں کے سربراہوں کو بلاکر کہا جس طرح وہ عطیات جمع کرتے ہیں اسی طرح زرمبادلہ جمع کرکے پاکستان کے ذخائر کو بڑھائیں۔ سنا ہے کہ اسحاق ڈار نے رفاہی اداروں کے سربراہوں سے کہا کہ وہ بیرون ملک جاکر اوورسیز پاکستانیوں سے ڈالر جمع کریں اور انہیں یہ بھی قائل کریں کہ وہ اپنے پیسے ہنڈی کے بجائے بینکوں کے ذریعے بھیجیں۔ اوورسز پاکستانیوں نے ڈالر بینکوں کے ذریعے بھیجنا اس لئے بند کردیئے ہیں کہ وہ عمران خان کی معزولی سے ناخوش ہیں، غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت عمران خان کو ولی اللہ قطب اور رہبر مانتی ہے۔ یہ سارے لوگ عمرانی کلٹ کے رکن ہیں اور عمران خان کی وجہ سے موجودہ حکومت سے بدلہ لے رہے ہیں۔
کوئی اسحاق ڈار کو سمجھائے کہ آپ تو معیشت ٹھیک کرنے کی بڑھکیں مارکر آئے تھے لیکن اب خیرات، زکوٰۃ اور عطیات جمع کرکے معیشت کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں یا دعائوں کے ذریعے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانا چاہتے ہیں۔ بھلا 25 کروڑ لوگوں کا ملک اوورسیز پاکستانیوں کی عطیات سے کیسے چلے گا، وہ اس وقت 30 ارب ڈالر بھیج رہے ہیں، اگر بہت زیادہ مہربانی کریں تو مزید پانچ ارب ڈالر کا اضافہ کرسکتے ہیں، برآمدات 26 ارب ڈالر ہیں جبکہ ملک چلانے کیلئے 100 ارب ڈالر سالانہ کی ضرورت ہے تو سوال یہ ہے کہ اضافی 50 ارب ڈالر کہاں سے آئیں گے اس کے لئے زبردست اصلاحات کرنا ہونگی اور جب تک اہم ادارے تعاون نہ کریں یہ اصلاحات نہیں ہوسکتیں جیسے کہ آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ تمام سویلین اور غیر سویلین اعلیٰ افسروں کے اثاثوں کو ڈیکلیئر کیا جائے بلکہ اپنے عزیز واقارب کے اثاثہ جات کو بھی سامنے لایا جائے، یہ بہت ہی کڑی شرط ہے، یہ مطالبہ بھی ہے کہ دفاعی اخراجات 50 فیصد تک کم کئے جائیں، بظاہر اس پر عمل کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے، اس کیلئے تو حکومت کی قربانی دی جاسکتی ہے، یہ تو معلوم نہیں کہ آئی ایم ایف قرض دے گا کہ نہیں لیکن اس شرط سے بچنے کیلئے ’’قومی حکومت‘‘ کے قیام کی باتیں شروع کردی گئی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اعلیٰ حکام کی ہدایت پر سانحہ پشاور کے تناظر میں جو اے پی سی بلائی ہے وہ پاکستان میں ایک قومی حکومت کے قیام کی ابتداء ہے کیونکہ حکام بالا کا خیال ہے کہ پاکستان کو اس وقت جو بحران اور خطرات درپیش ہیں کوئی ایک جماعت ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی لہٰذا تمام جماعتوں پر مشتمل ایک قومی حکومت کا قیام ناگزیر ہے، اس دوران کوشش کی جائے گی کہ دو صوبوں میں انتخابات موخر ہوجائیں اور عام انتخابات کو بھی ایک سال تک موخر کیا جائے، اسی سلسلے میں فیصلے مارچ تک متوقع ہیں، اگر عدالتوں نے دخل اندازی نہیں کی تو حکومت انتخابات کی نوبت نہیں آنے دے گی۔
اے آر وائی کے اینکر کاشف عباسی کے پروگرام میں جب فواد چوہدری سے پوچھا گیا کہ دوران حراست بچوں کی یاد آئی تو ان پر کیا گزری، اس پر تحریک انصاف کے پہلوان لیڈر کی آواز رندھ گئی اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، اس کے ساتھ ہی ایک وڈیو وائرل ہوئی جب رہائی کے بعد فواد چوہدری اپنے گھر پہنچتے ہیں تو ان کی گڑیا جیسی بچیاں اپنے ننھے ہاتھوں سے ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ سوچنے کی بات ہے یہ برسہا برس سے ریاست کی بلوچستان میں جو پالیسی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ مسنگ ہیں، ان کے بھی خاندان ہیں، ان کے بھی بچے ہیں تو اپنے پیاروں کی گمشدگی سے ان پر کیا گزر رہی ہے۔ مقام افسوس ہے کہ ایک ریاست اور اس کے ادارے اپنے ہی لوگوں کے درمیان یہ فرق روا رکھ رہے ہیں۔ فواد چوہدری صرف 5 دن جیل میں رہے اور ضمانت پر رہا ہوگئے، ایم این اے علی وزیر تمام عدالتوں سے ضمانت ملنے کے باوجود ابھی تک جیل میں ہیں، اس لئے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ’’ڈومیسائل‘‘ کا اتنا فرق رکھنا قومی یکجہتی کو کیا فائدہ دے گا، وقت تو گزر جائے گا، وقت بلوچستان کے ان بچوں کا بھی گزرچکا ہے جن کے پیارے شوریدہ سر زندانوں میں دم توڑ چکے ہیں یا تاریک راہوں میں مارے گئے ہیں۔ وقت تو وزیرستان کے بچوں کا بھی گزر جائے گا لیکن یہ سوال ہمیشہ رہے گا کہ شہریوں کے درمیان علاقے کی بنیاد پر اتنا امتیاز کیوں؟ حکمرانوں کو سوچنا چاہئے کہ جنوبی ایشیاء کی دوسری عظیم ریاست آج ایشیاء کا مرد بیمار کیوں بن گئی ہے، وہ اپنی غلطیوں کا حساب کریں اور خود احتسابی کا فیصلہ کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں