ایف نائن پارک میں گینگ ریپ کے ملزمان کو پولیس حراست میں قتل کیا گیا، ایمان مزاری

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ) اسلام آباد میں ایف نائن پارک میں گینگ ریپ کے ملزمان کو پولیس حراست میں قتل کیا گیا عورت مارچ سوسائٹی۔ملزمان کے سینے میں دفن راز آشکار ہونے کا خطرہ ان کے قتل کا موجب بنا۔ ملزمان اس سے پہلے کی متعدد واراتوں میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ یہ ماورائے عدالت قتل کی واردات ہے پولیس کے خلاف دہرے قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔ گینگ ریپ کی متاثرہ خاتون نے ملزمان کے قتل سے دو روز قبل پولیس حراست میں ملزمان کی شناخت کی تھی۔ ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے دوارن تفتیش متاثرہ خاتون کے ساتھ ہتک آمیز رویہ رکھا۔ عورت مارچ سوسائٹی کی طرف سے فرزانہ راجہ ایمان مزاری اور دیگر نے جمعہ کے دن پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ ایمان مزاری ایڈوکیٹ نے کہا کہ ایف نائن پارک گینگ ریپ واقعہ میں ملوث ملزمان کو پولیس نے قتل کیا ہے، آئی جی اسلام آبادنے پارلیمنٹ کو گمراہ کیا ہے کہ ملزمان ہمارے پاس نہیں تھے۔ 15فروری کومتاثرہ لڑکی کو ملزمان کی پہچان کیلئے بلایا گیا تھاجہاں انہوں نے ملزمان کی شناخت اور تصدیق کی تھی،ایس ایس پی ماریہ جنسی زیادتی کی کیس کی تفتیش کے اصولوں اور قواعد سے لا علم ہیں۔انہوں نے کہااسلام آباد پولیس جنسی زیادتی کی تفتیش کے لیے ناہل ہے اسے تربیت دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومتی واقعہ کی انکوائری کر ے اور پولیس کا احتساب کیا جائے۔ پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے پر آئی جی اسلام آباد کو استعفیٰ دینا چاہیے۔ ایف نائن پارک گینگ ریپ واقعہ کے حوالے سے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے متاثرہ لڑکی کی وکیل ایمان مزاری ایڈووکیٹ عورت مارچ سوسائٹی کی روح رواں ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ واقعہ میں ملوث دو ملزمان کو 15 فروری کو گرفتار کیا گیاتھا،ملزمان کو CIA آفس آئی نائن میں رکھا گیا تھا، پولیس نے متاثرہ لڑکی کو 15فروری ملزمان کی شناخت کیلئے بلایا تھا جہاں انہوں نے ملزمان کی شناخت کی اور تصدیق کی کہ وہ وہی ملزمان ہیں جو واقعہ میں ملوث تھے۔پھر آئی جی پولیس نے کیوں کہاں کہ ملزمان ہمارے پاس نہیں تھے۔ ملزمان کو قتل کرکے پولیس کیا چھپانا چاہتی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے پر آئی جی اسلام آباد کو استعفیٰ دینا چاہیے، اس کیس کے حوالے سے سپیشل انوسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی جس میں سول سوسائٹی کی طرف سے فرزانہ باری کو شامل کیا گیا تھا۔ اس موقع پر فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ پہلی دو میٹنگز میں مجھے بلایا گیا لیکن جو بعد میں میٹنگز ہوئی نہیں بلایا گیا جو ملزمان پکڑے گئےمتاثرہ لڑکی نے تصدیق کی کہ وہی لوگ محرم ہیں، جبکہ ملزمان نے اپنا جرم قبول بھی کیا،ہم اس وقت حیران ہوگئے کہ جب ہمیں پتہ چلا کہ ملزمان کو پولیس مقابلے میں مار دیا گیاملزمان پولیس کی حراست میں تھے مارے کیسے گئے، پاکستان کی ریاستی اداروں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ قانون کے مطابق سزا ہونی چاہیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس کیس کی جوڈیشل انکوائری کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں