سرکار، سردار اور عوام

تحریر : انور ساجدی
بارکھان میں جو سانحہ ہوا اس نے پورے ملک میں رنج والم کی لہر دوڑا دی لیکن ظلم، زیادتی اور جبر کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، فرق یہ ہے کہ ماضی میں ایسے مظالم چھپے رہتے تھے اور اب سوشل میڈیا کی وجہ سے درندوں کے ان مظالم کو چھپانا تقریباً ناممکن ہے۔
21ویں صدی میں جو ڈیجیٹل انقلاب آیا ہے بلاشبہ یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب ہے جس نے اطلاعات کی رسائی کو کرہ ارض کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ممکن بنایا ہے، یہ جہاں ایک مثبت انقلاب تو اس کے ذریعے ذہنی انتشار اور اضطراب کے فیکٹرز بھی موجود ہیں جبکہ مخالفین کے خلاف دشنام طرازی اور ”فیک نیوز“ کو تیزی کے ساتھ پھیلایا جاسکتا ہے۔ اس سے قطع نظر اس کے ذریعے آزادی اظہار اور علم فروغ دینے میں ایسی آسانیاں پیدا ہوگئی ہے جن کے بارے میں گزشتہ صدی کے آخری عشرے تک سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔
وہ کمسن لڑکی جس نے سردار کی نجی جیل یا عقوبت خانے میں مقید خاتون گراں نازکا پیغام عام کیا اور جسے مارکر اس کی لاش مسخ کردی گئی کم از کم بلوچستان کی حد تک یہ پہلی ڈیجیٹل شہید ہے جب قبائلی اتحاد نے اپنی لاشوں کو لیکر دھرنا ختم کردیا تو اس معصوم لڑکی کی وراثت کا کسی نے دعویٰ نہیں کیا لیکن عام سوشل ایکٹیوٹس اور بلوچ تحریک کے نمائندے اس لاوارث کا وارث بن گئے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کیونکہ بلوچستان میں جتنے بھی ستم رسیدہ لوگ ہیں تحریک میںشامل نوجوان ہی ان کے اصلی وارث ہیں، یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے عظیم بلوچ رہنما نواب خیر بخش مری کے جسد خاکی کو سرکار اور سردار کے قبضے سے آزاد کروایا اور دامن چلتن میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آسودہ خاک کردیا۔
اصل بات یہ ہے کہ نواب اکبر خان کی شہادت کے بعد جو صورت حال پیدا ہوگئی ہے اس نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا ہے، اس کے بعد سے بلوچستان ایک فیصلہ کن مگر نازک مرحلے سے گزر رہا ہے، لارڈ سنڈیمن کے دور سے لیکر اب تک جو طبقہ سماج کا اشرافیہ تھا اور جس نے ہر دور میں ہر حکومت کی حمایت کرکے مراعات وصول کیں وہ بھی پہلی مرتبہ بے نقاب ہوگیا ہے، حالانکہ اس طبقے نے صدیوں تک اپنا چہرہ چھپائے رکھا، اس طبقے نے سیاست اور قیادت کے لطف اٹھائے، معصوم عوام یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہمارا خیر خواہ ہے، یہ اشرف المخلوقات ہیں، خدا نے انہیں سردار اور لیڈر بنایا ہے تاکہ وہ ہماری قیادت کا فریضہ ادا کرسکے لیکن تاریخی حقائق مختلف اور بہت تلخ ہیں، ماضی میں زیادہ دور جانے کی ضروت نہیں ہے جو حال ہے یا ماضی قریب ہے وہ 1948ءسے شروع ہوتا ہے، 1947ءسے مارچ 1948ءتک سرداروں نے جو کچھ کیا وہ قوم کے پریشان دفتری اوراق میں محفوظ ہے۔جعلی ریفرنڈم تو کوئٹہ میونسپلٹی کے غیر مقامی ممبران اور انگریزوں کے قائم کردہ شاہی ممبران کے لئے طے تھا لیکن یہ سردار خاران اور سردار لسبیلہ نے نہ آﺅ دیکھا اور نہ تاﺅ دیکھا ممکنہ سرکار کی حمایت کا اعلان کردیا حالانکہ ان سے تو کچھ پوچھا نہیںگیا تھا، پھر 1947ءکے بعد کا دور شروع ہوتا ہے، یہ ایک افسوسناک اور چشم کشا دور ہے، یہ بے وفائی، بد عہدی اور عہد شکنی کا ناقابل فراموش دور ہے، انگریزوں کی طرح نئے حکمرانوں نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ عوام ”افتادگان خاک“ ہیں لہٰذا ان سے کوئی راہ رسم نہ کی جائے بلکہ جو آزمودہ خادمان اور مطیع اور فرماں بردار طبقہ ہے اس کو ہاتھ میں لیکر کام چلایا جائے، جوکچھ اسکندر مرزا نے کیا (میر جعفر کے پڑپوتے) جو ایوب خان، یحییٰ خان ، ضیاءالحق اور پرویز مشرف نے کیا وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے، حکمران عوام سے خوفزدہ تھے۔ وہ 1958ءکی تحریک جس میں اکثر سردار حکومت کے ساتھ تھے، 1973ءکی تحریک اور جو تحریک اس وقت چل رہی ہے یہ طبقہ وطن فروشی کا مرتکب ہوکر میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کررہا ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے نواب اکبر خان کے نعرہ ساحل ووسائل سے گھبراکر پریس کانفرنس میں باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ بلوچستان کے 73 سردار ان کے ساتھ ہیں، صرف تین سردار ان کے خلاف ہیں، یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ تین سردار سیاسی لیڈر کا کردار ادا کررہے تھے ، ان کی سرداری ایک طرف تھی، اگرچہ ان سرداروں کے تنقیدی پہلو بھی ہیں لیکن اس مضمون میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔
ایک اور تاریخی حقیقت بتاتا چلوں کہ فروری 1978ءکو جب جنرل ضیاءالحق سبی میںآئے تھے تو دربار کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، پہلی صف پر بڑے بڑے وفادار سردار تشریف فرما تھے جن کی اکثریت نے سفید دستار پہن رکھی تھی، ان کے پیچھے وڈیرہ ٹکری اور میر معتبر بیٹھے ہوئے تھے۔
ضیاءالحق نے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا کہ آج سے میں آپ کے سروں پر دوبارہ دستار رکھ رہاہوں، یہ ایک علامتی بات تھی یعنی ریاست قیادت سردااروں کے ہاتھ میں دے گی اور جو بلوچ ہیں وہ جائیں باڑ میں۔
ضیاءالحق نے جونظام دیا اس میں سرداروں کو نہ صرف حکومت دی گئی بلکہ صوبائی خزانہ کی کنجیاں بھی عنایت کی گئیں، یہ جو آج اس طبقہ کا شاہانہ ٹاٹھ باٹھ نظر آتا ہے یہ ضیاءالحق کا دین ہے، انہوں نے 1985ءکے جعلی انتخابات کے ذریعے کم از کم دو درجن کے قریب سرداروں کو اسمبلی پہنچادیا بعد ازاں کابینہ بناکر انہیں وزیراعلیٰ اور کابینہ میں شامل کیا گیا، نئی شاہی مراعات سے پہلے دو تین سرداروں کو چھوڑ کر باقی تمام متوسط طبقہ کی زندگی گزار رہے تھے لیکن 1985ءکے بعد سے اب تک اس طبقے نے جو دونوںہاتھوں سے صوبائی وسائل لوٹے ہیں بلکہ ریاست کی آشیرباد سے انہوں نے جو لوٹ مار کی ہے اس کی وجہ سے ان کا طرز زندگی انتہائی پرتعیش اور شاہانہ ہوگیا ہے، اس طبقے کے بیشتر لوگوں کا کراچی، دبئی حتیٰ کہ لندن میں اربوں روپے کے محلات ہیں، ان کی قیمتی گاڑیوں کا کوئی حساب نہیں ہے۔ ان کی دھن دولت بے شمار ہے، ان کے سروں پر ریاست کی ودیعت کردہ طاقت کا خمار ہے، 2006 کے بعد ریاست نے ایک اور طریقہ کار اختیار کیا، ایک طرف اس طبقے کو مزید مراعات دی گئیں، دوسری طرف مسلح جتھے بنائے گئے جس کا مقصد تحریک کو طاقت کے ذریعے کچلنا تھا حالانکہ طاقت کے استعمال اور تشدد سے کسی بھی تحریک کو کچلنا یوں آسان نہیں ہے، اس ریاستی اقدام کے نتیجے میں کئی وار لارڈ بن گئے، سردار وار لارڈ تو پہلے سے تھے لیکن ان کا رول مزید بڑھا دیاگیا، اس طبقے نے نواب صاحب کی شہادت کے بعد قلات میں گرینڈ جرگہ بلاکر جو سوگند دکھائی وہ بہت جلد توڑ دی، بلوچوں کی تاریخ میں یہ سب سے بڑی عہد شکنی اور اپنی قوم سے ناقابل تلافی بے وفائی تھی، اس رول کے ساتھ یہ مختلف جماعتوں میں گھس گئے حالانکہ ان کا کوئی نظریہ کوئی اصول ہے ہی نہیں، یہ تاریخ میں نہ اپنی گلزمین کے وفادار رہے اور نہ ہی اپنی قوم سے کسی الفت کااظہار،اس دوران نام نہاد پارلیمان میں پناہ حاصل کرنے والا یہ طبقہ مزید غضب ناک ہوگیا کیونکہ ان کے گروہی مفادات کو خطرات لاحق ہوگئے تھے حتیٰ کہ اکثر اپنے علاقوں میں بھی نہیں جاسکتے تھے کیونکہ عوام پارلیمان سے کہیں دور اپنی قیادت کا انتخاب کرچکے تھے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ان کا مقصد اور منشا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی انتخابات جوکہ دراصل ہوئے نہیں اس طبقہ کو زبردستی کامیاب قرار دے کر قیادت اور حکومت کی کرسیوں پر بٹھادیا گیا، سرکار کی جانب سے یہ قدرتی انسانی ارتقا کو روکنے کی ایک ناکام کوشش ہے کیونکہ موجودہ انفارمیشن عہد میں عوام کو بے وقوف بنانا مشکل ہے، آج بھی کئی سرداروں کے نجی عقوبت خانے ہیں جہاں گراں ناز جیسی خواتین اور اس کے معصوم بچوں کی طرح مظالم روا رکھے جاتے ہیں چونکہ نظام انصاف نہیں ہے تو ان کے خلاف کسی افسر کو ایف آئی آر کاٹنے کی جرا¿ت نہیں ہے، کئی ایسے واقعات ہیں کہ بے گناہوں کو بلاوجہ گولیوں سے بھون دیا گیا تاکہ عوام پر رعب وداب جاری رہے اور بڑی حقیقت کیا ہے اگر سرکار سرداروں کو چھوڑ دے، ان کی سرپرستی بند کردے، ان کی حیثیت کا پتہ چلے گا۔
میر خیر بخش مری نے اپنی موت سے قبل کہا تھا کہ میرے بعد بلوچ سرداری نظام کو قبول نہیں کریں گے اور جس کے نتیجے میں اس نظام کا خاتمہ ہوجائے گا۔ نواب اکبر خان نے کہا تھا کہ میرے وارث میرے خاندان کے لوگ نہیں بلوچ قوم ہے، میں قربانی اپنی سرزمین اور قوم کی خاطر دے رہا ہوں۔
چنانچہ سرکار اور سردار کو ادراک کرنا چاہئے کہ قرون وسطیٰ کا نظام جاری نہیں رہ سکتا وہ عوام کے اندررہیں ظلم کا سلسلہ ترک کردیں۔
60 سال قبل بی ایس او کی تشکیل کے ساتھ ہی ہمارے ساتھیوں نے سرداری نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا، آج ان کا ویژن اور وجدان سچا ثابت ہوگیا ہے۔ یہ تحریک سرداروں کی ذات کے خلاف نہیں تھی سرداری نظام کے خلاف تھی، وہ جانتے تھے کہ اپنا عظیم مقصد نیشن حاصل کرتی ہیں، قبائل نہیں۔
1958ءتک مطالبہ یہ تھا کہ ریاست قلات بحال کی جائے لیکن آج مطالبہ یہ ہے کہ بلوچستان کو واگزار کیا جائے، ریاست قلات بلوچستان کی جزو تھی کل نہیں، اب معاملہ بہت دور جاچکا ہے اتنی دور کہ سرداروں کی دسترس اور بس سے باہر، یہ 21 ویں صدی ہے، یہ قوموں اور قومی ریاستوں کا دور ہے، اس میں قبائل کی حیثیت محض علامتی ہے، اس طرح جو سیاسی جماعتیں اپنے آپ کو قوم پرستی کہتی ہیں وہ بھی اپنا قبلہ درست کریں اور دوغلی سیاست اور منافقانہ کردار ترک کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں