بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے بجائے ان میں تیزی لائی گئی ہے،بی ایس او

کبیر بلوچ، مشتاق بلوچ، عطاء اللہ بلوچ سمیت ہزاروں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر نام نہاد عدالتوں و عالمی اداروں نے اپنی زمہ داریوں کو کبھی پورا نہیں کیا۔ بی ایس اوبلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے تنظیم کے سابقہ رکن کبیر بلوچ اور اس کے ساتھ مشتاق بلوچ اور عطاءاللہ بلوچ کے جبری گمشدگی کی چودہ سال مکمل ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے بیس سالوں سے سیاسی کارکنوں و دیگر کی جبری گمشدگیاں تواتر کے ساتھ جاری ہیں۔

وفاق پاکستان آغاز حقوق بلوچستان و دیگر نام نہاد پیکجوں کے زریعے بلوچ قومی سوال کو دبانے کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن اصل مسائل کو حل کرنے کے بجائے قومی تحریک میں متحرک سیاسی کارکنوں کو ازیت کا شکار بنانے کی عمل کو جاری کئے ہوئے ہے۔ کبیر بلوچ، مشتاق بلوچ، عطاء اللہ بلوچ سمیت ہزاروں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر نام نہاد عدالتوں و عالمی اداروں نے اپنی زمہ داریوں کو کبھی پورا نہیں کیا۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں پر غور کرنے کے بجائے اب ان میں تیزی لائی گئی ہے۔ اب سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ بچوں و خواتین کو جبری گمشدگیوں کا شکار بنانے کے بعد لاپتہ کرنے کے عمل میں تیزی لائی گئی ہے جو کہ آئین و انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمیت کھلی سفاکیت ہے۔

ترجمان نے عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان میں انسانیت سوز مظالم کے خلاف چھپ کا روزہ توڑ کر مظلوم بلوچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں عملی کردار ادا کریں۔ ریاست پر امن سیاسی عمل کو تشدد اور جبری گمشدگیوں کے زریعے کچلنے کی عمل کو دھائیوں سے جاری کئے ہوئے ہے اور جواب طلبی نہ ہونے کی وجہ سے وہ مزید سیاسی کارکنوں و ان کے خاندانوں کو زہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں