جامعہ بلوچستان میں تنخواہوں کی عدم فراہمی، اساتذہ اور عملے نے کشکول اٹھا کر چندہ مہم شروع کردی

کوئٹہ (آن لائن) جوائنٹ ایکشن کمیٹی جامعہ بلوچستان کے زیر اہتمام 10 اپریل بروز سوموار کو پچھلے تین مہینوں کی تنخواہوں کی تاحال عدم ادائیگی، جامعہ بلوچستان سمیت دیگر جامعات کو درپیش سخت مالی و انتظامی بحران کی مستقل حل، بلوچستان یونیورسٹیز ایکٹ 2022 کی پالیسی ساز اداروں میں اساتذہ، آفیسران، ملازمین اور طلبا وطالبات کی منتخب نمائندگی، غیر قانونی طور پر مسلط وائس چانسلر کی برطرفی ، آفیسران و ملازمین کی پروموشن، آپ گریڈیشن اور ٹائم سکیل کی فراہمی کے لئے بڑی احتجاجی ریلی جامعہ بلوچستان سے نکالی گئی جو صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنے میں تبدیل ھوئی، احتجاجی دھرنے میں سینکڑوں کی تعداد میں اساتذہ، آفیسران و ملازمین نے شرکت کی اور بیوٹمز، لسبیلہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور آفیسرز نے بھی شرکت کی۔جامعہ بلوچستان کے اساتذہ کرام، آفیسران اور ملازمین نے آج جامعہ بلوچستان کے سامنے سریاب روڈ پر اور صوبائی اسمبلی کے سامنے جامعہ بلوچستان کے لئے علامتی طور پر کشکول، خیراتی و زکوا مہم بھی چلایا ، مظاہرین نے کشکول اور ڈبے اٹھا کر جامعہ بلوچستان کے لئے خیرات اور زکواتھ اکٹھا کیا اور احتجاجا اپنی ڈگریوں، کتابوں کو بھیجنے اور مختلف دوکانوں کے سٹال لگائے ۔ صوبائی اسمبلی کے سامنے دھرنا پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ بڑیچ کی صدارت میں ہوا دھرنے سے سے پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ بڑیچ، شاہ علی بگٹی، نذیر احمد لہڑی، پروفیسر فرید خان اچکزئی، پروفیسر فرہانہ عمر مگسی، پروفیسر نعمان کاکڑ، نعمت اللہ کاکڑ، گل جان کاکڑ، سید محبوب شاہ، حافظ عبدالقیوم اور جماعت اسلامی کے مولانا عبدالمتین اخونزادہ نے خطاب کیا۔ مقررین نے کہا کہ جامعہ بلوچستان کے اساتذہ اور ملازمین اپنی بنیادی حق تنخواہ کے لئے احتجاج کررہے ہیں جبکہ صوبائی و مرکزی حکومت خاموش تماشائی بنے ہیٹھے ہیں۔ اس مقدس مہینے میں صوبائی اسمبلی کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہیں لیکن صوبائی حکومت کے کسی وزیر نے باہر ہم سے بات کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ مقررین نے تجویز دی کہ اگر ان کے پاس جامعات کو چلانے کے لئے وقت اور ارادہ نہیں تو جامعہ بلوچستان سمیت دیگر تمام جامعات کو بند کرنے کا بل منظور کرا کر جامعات کو مستقل بند کردے۔ مقررین نے کہا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے تعلیم خاص کر اعلی تعلیم پر اپنے جی ڈی پی کا 4 فیصد سے زیادہ خرچ کرکے خوشحالی اور ترقی حاصل کی جبکہ یہاں نہ مرکزی اور نہ صوبائی حکومت تعلیم پر خرچ کررہی ہیں نتیجے میں جامعات مسلسل مالی بحران کے شکار ہیں، مقررین نے کہا کہ جامعہ کے ملازم امیر جان بلیدی کے قتل کا مقدمہ جامعہ کے وائس چانسلر اور صوبائی حکومت کے درج کیا جائے۔ علاوہ ازیں غیرقانونی طورپرمسلط وائس چانسلر نے جامعہ بلوچستان کو تباہ و برباد کردیا اسکی برطرفی کو برقرار رکھ کر کسی اہل پروفیسر کو میرٹ کے مطابق وائس چانسلر تعینات کیا جائے۔جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اعلان کیا کہ جب تک جامعہ بلوچستان کے اساتذہ اور ملازمین کو ماہانہ تنخواہ کی بروقت ادائیگی نہیں ہوتی اور جامعات کو درپیش مالی اور انتظامی مسائل کا مستقل حل نہیں نکالا جاتا جامعہ بلوچستان میں تالا بندی ،امتحانات اور ٹرانسپورٹ نہیں چلایا جائے گا بلکہ مستقبل میں میں احتجاج کا داہرہ کا صوبے کے دوسرے جامعات تک پھیلایا جائے گا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں