بلوچستان میں اسمگلنگ سے چند سو افراد کروڑوں روپے کے مالک بن گئے، قائمہ کمیٹیوں میں بحث
گوادر :بلوچستان میں اسمگلنگ کی بازگشت سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں میں زیر بحث، کسٹم حکام کو ملک کی سڑکو ں پر مال روکنے کی اجازت نہیں ،غیر قانونی اسمگلنگ سے چند سو افراد کروڑوں روپے کا مالک بن گئے، دو نمبر اور غیر قانونی طریقے سے کاروباری افراد کا راستہ روکنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، بارڈر مافیا کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ تفصلات کے مطابق اجلاس میں کسٹمز حکام کی طرف سے پشتون کاروباری افراد کے ساتھ رویہ پر غور کیا گیا۔سینٹر سردار شفق ترین کی طرف سے معاملہ فروری میں سینٹ میں اٹھایا گیا تھا دوسری ممبر کسٹمز آپریشنز مکرم جاہ انصاری نے کہاکہ کسٹمز حکام کو ملک کی سڑکوں پر مال روکنے کی اجازت نہیں مگر اس کے برعکس مکران کوسٹل ہائیوے پر ایرانی ڈیزل و پٹرول کی گاڈیوں کو ہیندل کرنے کے لیئے کسٹم حکام کے متعدد چیک پوسٹیں قائم ہیں جو گوادر سے بیرون صوبہ نکلبے والی قومی شاہراہوں پر گاڈیوں کی روک ٹوک میں مصروف دکھائی دیتے ہیں، گوادر سے بذریعہ کوسٹل ہائیوے پاکستان کسٹم کی نلینٹ،پسنی زیروپوائنٹ، اورماڑہ سے لیکر کورکیڈہ چیک پوسٹوں سے روزانہ لاکھوں بیرل ایرانی پٹولیم مصنوعات بیرون صوبہ اسمگلنگ جارہی ہے جس پر پاکستان کسٹم کسی بھی قسم کی کاروائی کرنے سے قاصر ہے، گوادر سے بذریعہ مکران کوستل ہائیوے ایرانی پٹرولیم مصنوعات ملک بھر میں بہ آسانی اسمگل ہورہا ہے جس کے باعث ملکی و قومی خزانے کو ماہانہ اربوں روپے نقصان کا سامنا ہے،ایرانی تیل کی ترسیل بیرون صوبہ بدستور زور وشور سے جاری ہے محکمہ کسٹم اسمگلنگ کی روک تھام میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے ذرائع کے مطابق تیل بردار گاڑیاں چیک پوسٹوں پر بھاری بھرکم بھتہ دے کر چیک پوسٹوں میں سے گزر جاتے ہیں اور رات کے اوقات ان چیک پوسٹوں پر تیل بردار گاڑیوں کا میلہ لگا رہتا ہے جبکہ متعلقہ محکموں کے سربراہان کا اس کے خلاف اقدامات نہ اٹھانے سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ ان چیک پوسٹوں پر اس دھندے میں ان کے ملوث ہونےکا اشارہ کر رہی ہے۔


