بلوچستان ہیلتھ کارڈ پروگرام سے ہر خاندان کو پاکستان کے 12 سو اسپتالوں میں صحت کی مفت سہولیات ملیں گی

کوئٹہ (آن لائن) چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او )بلوچستان ہیلتھ کارڈ پروگرام اسد اللہ کاکڑ نے کہا کہ یونیورسل ہیلتھ کوریج پروگرام بلوچستان میں ہرشہری کو فراہم کیاجانے والا ایک منفرد پروگرام ہے۔ ہر خاندان کو ہیلتھ کارڈ سہولت کے تحت ملک بھر کے 1200 ہسپتالوں میں صحت کی مفت سہولیات دی جائیں گی۔عوام کی سہولت کے لئے بلوچستان کے 34 اضلاع میں 20 لاکھ خاندان صحت انصاف کارڈ سے مستفید ہونگے۔ 24 گھنٹے 7ہیلپ لائن قائم کر دی گئی ہےں ہر ہسپتال میں سہولت ڈیسک بنایا جارہا ہے رئیل ٹائم ڈیٹا اور مانیٹرنگ کا موثر نظام قائم کیا جائے گا بلوچستان کے ہر باشندے کا قومی شناختی کارڈ ہی ان کا صحت کارڈ ہوگاصحت کارڈ کے توسط سے بلوچستان کے 34 اضلاع میں سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں لوگوں کو اپنے گھروں کے قریب علاج کی سہولیات میسر آئیں گی اور لوگوں کو علاج کی فراہمی کے ساتھ ساتھ روزگار بھی ملے گا کیونکہ بلوچستان کے 18 اضلاع میں نجی ہسپتال نہیں ہیں وہ پر صرف سرکاری ہسپتال بی ایچ یوز اور دیگر محکمہ صحت کے مراکز ہیں ہم نے پہلے مرحلے میں ان ہسپتالوں میں صبح کے وقت سرکاری اور اس کے بعد ڈاکٹروں کو انہی ہسپتالوں میں صحت کارڈ کے حوالے سے پرائیویٹ پریکٹس کے لئے سہولت دینے کے لئے اقدامات اٹھا رہے ہیں کیونکہ بلوچستان میں روز اول سے ہی ڈاکٹروں کو اندرون بلوچستان اور رورل ایریا میں ڈیوٹی دینے کے لئے پابند نہیں بنایا جاسکا اس اقدام سے لوگوں کو ان علاقوں میں نجی ہسپتالوں کے قیام اور ان مین سہولیات کی فراہمی اور ڈاکٹرز کو پرائیویٹ پریکٹس کرنے کا موقع ملے گا اور فائدہ حاصل ہوگا ہم نے اس حوالے سے فارمولا تیار کیا ہے اور فنڈز کی تقسیم کو مختلف کیٹگریز میں تقسیم کردیا ہے 30 فیصد ڈاکٹر 10 فیصد ہسپتال 5 فیصد صفائی گارڈز اور 10 ایڈمن ¾ فنانس وغیرہ کو ملے گا اس سے ڈاکٹرز ان ہسپتالوں میں ڈیوٹی دینے کے علاوہ پرائیویٹ پریکٹس کریں گے کیونکہ یہ رقم اسٹیٹ لائف نے ادا کرنی ہے جو پرائیویٹ ہسپتالوں کو جاتی ہے یہی رقم ان ہسپتالوں میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں کو بھی دی جائے گی صحت کارڈ کے حوالے سے 2 شرائط مختص کی گئیں ہیں جس میں شناختی کارڈ پر مستقل پتہ بلوچستان کا درج ہونا چاہیے جس کا شناختی کارڈ بلوچستان کا ہے اس کو کسی وزیر سیاسی ¾ قبائلی یا عوامی نمائندے کی سفارش کی ضرورت نہیں ہوگی ایسا صاف اور شفاف سسٹم تیار کیا گیا ہے جیسے ہی کسی مریض شہری کا شناختی کارڈ نمبر اس میں درج کیا جائے گا اس کا تمام ریکارڈ آ جائے گا اور مستقل پتہ ہونے کے بعد اس کے علاج کے لئے تمام لوازمات پورے کئے جائیں گے ہر شہری کا شناختی کارڈ ہی اس کا صحت کارڈ ہے اس لئے ہماری اپنے لوگوں سے دردمندانہ درخواست ہے کہ وہ اپنے شناختی کارڈ پر مستقل پتہ اور اپنے بچوں کا برتھ سرٹیفکیٹ بنوائیں کیونکہ تمام اعداد و شمار کو یکجا کرنے کے لئے اور شفافیت برقرار رکھنے کے لئے صحت کارڈ کو اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی اور اس کے بعد نادرا کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے اس کے حوالے سے نیشنل ڈیٹا بیسڈ کمانڈ سینٹر بنا رہے ہیں جو پورے ملک میں جڑا ہوگا پاکستان کے کسی بھی شہر میں بلوچستان کا شہری اپنے شناختی کارڈ کے توسط سے علاج کے لئے اندراج کرائے گا ہمارے پاس مکمل تفصیلات آجائیں گی اور اس میں ہمیں مختلف علاقوں میں مریضوں کے علاج معالجہ کے لئے اندراج سے بیماریوں کے پھیلاﺅ اور پیدا ہونے والے وبائی امراض کے اعداد و شمار کا بھی پتہ چلے گا اور مریضوں کی تعداد کے ذریعے ان علاقوں میں کون سے مرض کے مریضوں کے لئے کتنی ادویات خریدنی ہے یہ تمام چیزیں شفافیت اور اعداد و شمار کے ذریعے ہمارے پاس موجود ہوں گی ان کا کہنا تھا کہ صحت کارڈ میں او پی ڈی میں آنے والے مریض شامل نہیں جو مریض ہسپتال میں داخل ہوگا وہی صحت کارڈ کی سہولت سے مستفید ہوسکیںگا اور ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد چھٹی کے وقت اسے پانچ روز کی ادویات بھی دی جائیں گی اور جو مریض علاج کروا کر ڈسچارج ہوگا اس کے بعد اسٹیٹ لائف کو جانے والا بل نادرا کے توسط سے مذکورہ مریض کے دیئے جانے والے موبائل نمبر پر رابطہ کرکے 7 سوالات پوچھیں گے کہ ان کا علاج ڈاکٹر نے کیا یا کسی کمپوڈر نے کیا ہے اور تمام چیزیں انہیں ہسپتال سے ملتی رہی ہیں ان تمام سوالوں کے جواب انہوں نے ہاں اور نا میں دینے ہیں اس کو ہفتہ وار اور ماہانہ حساب سے سسٹم مائز کرکے کمپیوٹرائزڈ کے ذریعے لوگوں کو سہولت دے رہے ہیں یہ پہلا قدم ہے اس سے ہر شخص کو فائدہ اٹھانا چاہیے اور اسٹیٹ لائف ہمیں نادرا کے ساتھ توسط سے نیشنل کمانڈ سینٹر بنا کر دے رہا ہے جس سے بہت فائدے ہوں گے انہوں نے کہا کہ اس وقت بی ایم سی اور سول ہسپتال میں 3 سے 4 ہزار مریض علاج کی غرض سے آتے ہیں انہیں صحت کارڈ کے توسط سے جب سہولت ملے گی تو صوبائی حکومت پر بھی بوجھ کم ہوگا اور اس سہولت سے عام شہری سے لے کر صوبے کا خاص شخص بھی علاج کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ہمیں تعصبات ذاتی و گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی مفاد پر عمل پیرا ہو کر اس کے لئے کام کرنا ہوگا اس میں سوشل ویلفیئر ¾ پاپولیشن ¾ سکول ایجوکیشن پرائمری کے محکموں کو بھی شامل کیا گیا ہے کیونکہ اس میں برتھ سرٹیفکیٹ سے لے کر 6 سے 10 سال تک کے بچوں کو لگنے والی بیماریوں کا ڈیٹا اور وبائی امراض کے حوالے سے بھی اعداد و شمار ملیں گے صحت انشورنس پروگرام اقوام متحدہ کے ذریعے 2016 میں قائم کردہ گولز ڈیٹا بیس اقدامات کے تحت شمار کیا گیا تھا جس کا مقصد غربت ختم کرو کو اس یونیورسل ہیلتھ کوریج انشورنس کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور پاکستان نے بھی اس حوالے سے مدد کرنے کی حامی بھرتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ اور اس لئے اس میں آبادی کو شامل کیا گیا ہے کہ انہیں صحت کی بنیادی سہولیات ملیں گی جس میں پرائمری ٹرشری اور سیکنڈری کی سہولیات آسانی سے دستیاب ہوں گی اور لوگوں پر علاج معالجے کے حوالے سے اخراجات نہیں پڑیں گے اور لوگ اپنے بیمار ہونے پر فوری طور پر ہسپتال جا کر علاج کروا سکیں گے کیونکہ ہمارے لوگوں کو معاشی مشکلات کا سامنا رہتا ہے حکومت کی صحت کارڈ کی سہولت سے ان کو فائدہ ہوگا انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ شہر میں 40 سے 50 نجی ہسپتال موجود ہیں اور لوگوں کو یہاں پر پیسہ کمانے کا ذریعہ میسر ہے جب اندرون بلوچستان صحت کارڈ کی سہولت فعال ہوگی تو صوبے کے ان علاقوں میں بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی سرمایہ کاری کرکے ان اضلاع میں بہتر نجی ہسپتال قائم کریں گے کیونکہ انہیں اسٹیٹ لائف نے مریضوں کے علاج معالجہ کے توسط سے پیسہ دینا ہے لوگوں کو روزگار بھی میسر ہوگا ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ 80 لاکھ ہے اس کے تناسب سے 30 لاکھ لوگوںکو ہیلتھ کارڈ کا حصہ ہونا چاہیے لیکن لوگوں میں شعور کا فقدان ہے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے حکومت نے صحت کارڈ کے حوالے سے فی مریض کے حساب سے 3 ہزار روپے انشورنس کمپنی کو دینے ہیں اور اس کے لئے حکومت نے 5 ارب 80 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا ہے جس میں سے 64 کروڑ روپے اسٹیٹ لائف کو پہلے مرحلے میں ادا کئے جا رہے ہیں تاکہ وہ نیشنل کمانڈ سینٹر مینجمنٹ سسٹم اوزار اور آلات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ایمبولینسز اور دیگر لوازمات پورے کریں اس حوالے سے سمری بھیج دی گئی ہے اور معاہدے کے مطابق انہیں 3 اقساط میں فنڈز کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی پہلی قسط 3 ماہ دوسری قسط 6 ماہ اور تیسری قسط 9 ماہ بعد ادا کی جائے گی فی خاندان 2890 روپے دیئے جائیں گے ہماری کوشش ہے کہ نیشنل ڈیٹا بیسڈ کمانڈ سینٹر سیکرٹریٹ کے بلاک نمبر 14 میں قائم کیا جائے گا جہاں پر آئی ٹی سیکشن ہے کیونکہ باہر سے آنے والے وی آئی پیز اور ڈونرز کو مذکورہ سینٹر کا دورہ کرانے اور بریفنگ دینے میں آسانی ہوگی اور اس کے علاوہ ہماری کوشش ہے کہ بی ایم سی کے قریب پی ایس ڈی پی میں ہیلتھ انشورنس کے حوالے سے ہیڈ کوارٹر کے لئے فنڈز مختص کرائے جائیں اور اس وقت ہم نے پہلے مرحلے میں انشورنس کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں آنے والے وقت میں ہم اپنی انشورنس کمپنی بنا سکتے ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں