ایک اور قربانی کا مطالبہ

تحریر : انور ساجدی
ایک ایسے منصوبہ پر کام ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی ، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو کنڈم کر کے اپنے مطلب کی ایک ملک گیر جماعت تشکیل دی جائے ۔اگرچہ باپ پارٹی، ق لیگ اور استحکام پاکستان پارٹی کے منصوبے شدید ناکامی سے دو چار ہوگئے اس کے باوجود طاقت کے عناصر سیاسی جماعت کے حوالے سے خودکفالت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی دو سال ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک نئی جماعت کے قیام کا عندیہ دیا تھا انہوں نے لوگ اکٹھا کرنے کے لئے ری امیجنگ نامی ایک فورم بھی بنایا تھا اور کئی سیمینار منعقد کئے تھے۔پیپلزپارٹی کے منحرف رہنما مصطفی نواز کھوکھر، شریف خاندان کے ہاتھوں بے عزت ہو کر وزارت خزانہ سے مستعفی ہونے والے مفتاح اسماعیل اور بلوچستان کے رہنما حاجی لشکری رئیسانی نے بڑھ چڑھ کر ان سیمینارز میں اظہارخیال کیا تھا اور ایک نئی سیاسی فورس کے قیام پر زور دیا تھا۔حال ہی میں ن لیگ کے ایک اور نظرانداز لیڈر اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر عمر نے بھی ایک نئی جماعت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔عمران خان کے دور میں باپ پارٹی بہت کام آئی تھی حتیٰ کہ اس کے رہنما صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ منتخب کر دیا گیا تھا جبکہ اسی جماعت کے رہنما انوارالحق کاکڑ کو نگراں وزیراعظم کے منصب پر فائز کیا گیا تھا۔اگر انوارالحق کاکڑ کو چیئرمین سینیٹ بنانا مقصود ہوا تو باپ پارٹی اپنے تھوڑے سے ووٹوں کے ذریعے ایک بار پھر کام آئےگی جیسے کہ اس نے مسٹر کاکڑ کو بلوچستان سے سینیٹ کا رکن منتخب کروا کر دکھا دیا۔

مقتدرہ نے جس محنت اور لگن سے عمران خان کو اقتدار میں آنے کا موقع دیا اس سے کہیں زیادہ عرق ریزی سے کام لے کر ن لیگ کو8 فروری کے انتخابات میں جبری اکثریت دلائی اس کے باوجود کہ شہبازشریف نہایت تابع فرمان وزیراعظم ہیںاعلیٰ حکمران ان سے مطمئن نہیں ہیں کیونکہ ن لیگ تمام اہم عہدوں پر غیر منتخب اور غیر سیاسی لوگوں کو لانے کی دبے لفظوں میں مخالفت کرتی ہے۔اس نے کس دل سے اورنگزیب،احد چیمہ، محسن نقوی اور چند دیگر نامزد افراد کو اپنی سینیٹ کی نشستیں مجبوراً بخش دیں جبکہ اس کے اہم رہنما رانا ثناءاللہ اور میاں جاوید لطیف صرف کف افسوس ہی ملتے رہے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی افواہوں کے مطابق صدر زرداری سے چیئرمین سینیٹ کے عہدے کی قربانی مانگی گئی ہے۔ طے شدہ فارمولے کے مطابق یہ عہدہ پیپلزپارٹی کے حصے میں آیا تھا اور زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دلوا کر اس عہدے کے لئے نامزد کیا تھا اگر زرداری برضا و رغبت چیئرمین سینیٹ کا عہدہ دینے پر آمادہ ہوئے تو ٹھیک ورنہ ایک اور کشمکش کا آغاز ہوگا،تینوں جماعتوں کا رویہ دیکھ کر ہی ایک نئی ملک گیر جماعت قائم کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے حالانکہ زرداری نے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے کئی جتن کئے ۔انہوں نے اے این پی کے لیڈر ایمل ولی خان کو بلوچستان سے سینیٹر منتخب کروایا جبکہ نیشنل پارٹی اور جے یو آئی کے نمائندوں کو بھی اپنے ووٹوں سے سینیٹر بنایا۔زرداری کے اس طرز عمل نے نیشنل پارٹی کو مجبور کیا کہ وہ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کے بجائے حکمران اتحاد کا ساتھ دے۔اسی خاطر نیشنل پارٹی نے صدارتی انتخاب میں زرداری کو ووٹ دیا جبکہ وزارت اعلیٰ کی منصب کے لئے میرسرفراز بگٹی کی حمایت کی۔

اگر دیکھا جائے جو گھمبیر مسائل درپیش ہیں اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ شہبازحکومت کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکے گی۔معاملات کی سنگینی کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ن لیگ کے بزرگ لیڈر اور وزیردفاع خواجہ آصف نے پہلی مرتبہ اعتراف کیا ہے کہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے۔اس لئے عوام ریلیف کی توقع نہ رکھیں۔خواجہ آصف ایوب خان دور کے ایوزپشن لیڈر اور ضیاءالحق کی مجلس شوریٰ کے چیئرمین خواجہ صفدر کے صاحبزادہ ہیں۔انہوں نے2002 کی قومی اسمبلی میں ایک ایسا دھواں دھار خطاب کیا تھا جس کی مثال اسمبلی کی تاریخ میں موجود نہیں ہے۔شکر ہے کہ ان کا ڈومیسائل سیالکوٹ کا ہے اگر وہ بلوچستان کے باشندے ہوتے تو راولپنڈی یا منٹگمری جیل میں پھانسی چڑھ گئے ہوتے یا ہمیشہ کے لئے مسنگ پرسن ہوتے۔ خواجہ آصف کے سابق آرمی چیف باجوہ سے قریبی دوستانہ مراسم تھے وہ2018 کے انتخابات میں عثمان ڈار سے ہار گئے تھے لیکن باجوہ صاحب نے ان کی کامیابی کا خاص اہتمام کیا۔بعد ازاں باجوہ نے خواجہ آصف کو نوازشریف کے پاس لندن بھیجا اور انہوں نے نوازشریف کو قائل کیا۔ماضی کو فراموش کیا جائے اور باجوہ کو موقع دیا جائے۔انہوں نے باجوہ کی طرف سے یقین دہانی کروائی کہ شریف خاندان اور ن لیگ کو ریلیف دیا جائے گا۔چنانچہ توسیع حاصل کرنے کے بعد باجوہ بدل گئے اور انہوں نے عمران خان کی دستگیری کو جھٹک دیا جس کی وجہ سے وہ کمزور ہوگئے۔ تاوقتیکہ 2022 میں ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تحریک کی کامیابی کے لئے انہوں نے زرداری کو اعتماد میں لیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ شریف خاندان پیسے دینے میں ڈھیلا ہے جبکہ زرداری بہت دلیر ہے۔چنانچہ زرداری نے توقع کے عین مطابق تحریک انصاف کے کئی اراکین کو خرید لیا اور پھر تحریک کامیاب ہوگئی۔

خواجہ آصف ڈبل تعلقات کے باوجود نوازشریف کے پسندیدہ ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہیں خاص اہتمام کے ذریعے کامیاب کروایا گیا۔ عثمان ڈار کی والدہ کے مقابلہ میں وہ ہار رہے تھے۔پاکستان میں سرکاری جماعتیں یا کنگز پارٹی بنانا مقتدرہ کا بہت پرانا کھیل ہے۔ 1950 کی دہائی میں خان عبدالقیوم خان کنگز پارٹی کے لیڈر تھے۔بعد ازاں حسین شہید سہروردی کے مقابلے کے لئے مولانا بھاشانی کو میدان میں اتارا گیا جب ایوب خان کو ایک عدد جماعت کی ضرورت ہوئی تو اس نے مسلم لیگ کو توڑ کر اپنے دھڑے کا نام کنونشن لیگ رکھ دیا۔بھٹو صاحب اس پارٹی کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے تھے۔ 1970 کے عام انتخابات سے قبل یحییٰ خان نے قیوم مسلم لیگ اور جماعت اسلامی سے روابط استوار کئے تھے۔ان کا خیال تھا کہ یہ جماعتیں اکثریت حاصل کر کے انہیں باقاعدہ صدر منتخب کریں گی لیکن ہوا الٹ۔مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کر لی۔قیوم لیگ اور جماعت اسلامی دونوں کو عبرتناک شکست ہوگئی۔

1977 میں حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جنرل ضیاءالحق نے1985 میں مسلم لیگ جونیجو کے نام سے اپنی کنگز پارٹی بنائی لیکن یہ جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔نوازشریف کا دھڑا ضیاءالحق کے ساتھ مل گیا جبکہ محمد خان جونیجو علالت کی وجہ سے سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔جنرل پرویز مشرف نے ق لیگ کے نام سے کنگز پارٹی بنائی اور دھونس دھاندلی کے ذریعے اس جماعت کو حکومت دلائی۔مشرف کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد یہ جماعت بھی اپنے انجام کو پہنچ گئی اور آج کل برائے نام قائم ہے۔

2018 میں مقتدرہ جو ہمیشہ مضبوط مرکز کی حامی تھی اچانک بدل گئی اور اس نے بلوچستان کی سطح پر باپ پارٹی قائم کی اور اسے اقتدار بھی دلایا۔لیکن باپ پارٹی کمزور تنظیم اور کمزور قیادت کی وجہ سے توقعات پر پورا اتر نہ سکی۔یہی وجہ ہے کہ ایک نئی جماعت بنانے کے لئے سوچ و بچار جاری ہے۔حالانکہ شاہد خاقان عباسی مفتاح اسماعیل اور زبیر عمر ایسے کرشماتی لیڈر نہیں کہ وہ عوام کا اعتماد حاصل کر سکیں البتہ وہ مقتدرہ کا اعتماد حاصل کر سکتے ہیں اور ویسے بھی جب مقتدرہ کا اعتماد حاصل ہو تو عوام کا اعتماد کوئی معنی نہیں رکھتا۔پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں کو پنپنے نہیں دیا گیا اور انہیں کھلونا سمجھ کر بار بار توڑا گیا۔یہاں پر سیاسی جماعتوں کی کوئی توقیر نہیں کہ تمام بڑی جماعتیں باری باری بری طرح استعمال ہوئیں۔کسی لیڈر میں ایسا دم خم نہیں تھا کہ وہ ”انکار“کرتا اور اپنے انجام سے بے پرواہ ہو کر عوام سے رجوع کرتا۔اس حقیقت کے باوجود کہ ملک میں چہرے بدلتے ہیں اقتدار کسی کو نہیں ملتا جبکہ اختیارات ایک ہی جگہ مرتکز رہتے ہیں پھر بھی سیاسی جماعتیں وقتی فائدے کے لئے ہر حکم کی تکمیل پر آمادہ رہتی ہیں۔اس وقت جو تین بڑی جماعتیں ہیں ان کا دستور اور وطیرہ بھی یہی ہے۔سیاست میں مداخلت کے عمل نے پاکستان کا سیاسی استحکام چھین لیا ہے اور سیاسی لیڈروں کو شاہ دولے کا چوہا بنا دیا ہے۔سیاست میں دخل اندازی کی وجہ سے ایڈہاک ازم کی بنیاد پر ملک کو چلایا گیا جس کی وجہ سے وہ معاشی اعتبار سے دیوالیہ ہوگیا۔اس کے30 کروڑ عوام زندہ درگور ہوگئے۔یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے عوام نے نام نہاد سیاسی جماعتوں کو مسترد کر دیا وہ اپنے الگ راستے پر چل پڑے۔انہوں نے اپنے صوبے کی کئی نام نہاد قوم پرست جماعتوں کا حشر دیکھ لیا۔وقت نے انہیں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی ذیلی تنظیم میں تبدیل کر دیا۔بلوچستان میں زمانہ ہوا عوام پارلیمانی سیاست اور الیکشن سے دور ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ یہ کیا سیاست ہے اور یہ جو لیڈر ہیں ان کی حیثیت کیا ہے؟حالات بتا رہے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو دست و گریباں کر کے موجودہ کمزور حکومت کو بھی چند ماہ کے بعد چلتا کر دیا جائےگا نہ جانے کتنی عارضی حکومتیں بنائی جائینگی تاوقتیکہ ایک نیا الیکشن آ جائے ۔اس سے پہلے شاید نئی نام نہاد کنگز پارٹی وجود میں آ جائے۔اس ریاست کی تقدیر میں یہی لکھا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں