پینے کے پانی کاضیاع روکنے اورسینی ٹیشن کے نظام کی بہتری کیلئے ذمہ داری کامظاہرہ کرناہوگا!
تحریر: یحییٰ ریکی
اللہ تعالی نے پاکستان کوتمام نعمتوں سے نوازاہے، سرسبزچراگاہیں، ریگستان، نخلستان یابلوچستان کے قدرتی معدنیات، بڑے پہاڑی سلسلے اورگلیشیئرز، اورہرقسم کے موسم شایدکسی ملک کونصیب ہوں۔مگرہمیشہ سے انسان نے قدرت کی ان نعمتوں کی بے قدری کی اوراس طرح خیال نہیں رکھاجس طرح ہماری ذمہ داری تھی جس کی وجہ سے مختلف ادوارمیں مسائل جنم لینے لگے۔
جغرافیائی حوالے سے بلوچستان پاکستان کاسب سے بڑاصوبہ ہے مگروفاق نے ہمیشہ اس صوبے کونظراندازکرنے کی پالیسی اختیارکی، باعث تشویش امریہ ہے کہ بلوچستان کے مقامی حکومتوں کے پاس کام کرنے کیلئے کوئی وڑن نہیں ہوتااوروہ صرف بینک بیلنس بنانے کیلئے اقتدارمیں آتے ہیں۔حکمرانوں کے رویے اورمبینہ نااہلی کی وجہ سے بلوچستان کے دیگرشہروں میں ترقی درکنارماضی میں لٹل پیرس کہلانے والا شہر بدانتظامی کاشکارہوکرکچرہ کنڈی میں تبدیل ہوگیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے2010میں واٹراینڈسینی ٹیشن کو بنیادی انسانی حق قراردیااورپاکستان بھی اس کوتسلیم کرتاہے۔اقوام متحدہ کی طرف سے مختص کردہ پائیدارترقی کے اہداف میں صاف پانی اورسینی ٹیشن (SDGs6)رکھاگیا ہے، اس ضمن میں ضروری ہے کہ حکومتیں قانون سازی کرکے معاملات کوآگے بڑھائیں مگرتاحال اس بارے میں خطرخواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے اورمسئلہ جوں کاتوں ہے۔بلوچستان میں دیگرشعبوں کی طرح پینے کے صاف پانی اورواش سیکٹرپربھی کوئی خصوصی توجہ نہیں دی گئی، سابق دورمیں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں اربوں روپے کے اخراجات کرکے سیوریج کانظام توبنایاگیا مگراس میں منصوبہ بندی کافقدان رہا، فنڈزکوہڑپ کرنے کیلئے جگہ جگہ شہرکی سڑکوں کواکھاڑکرغیرمعیاری مٹیریل سے نالیاں تعمیرتوکئے گئے مگرگاڑیوں کی آمد ورفت کیساتھ یہ نالیاں جلدہی ٹوٹ پھوٹ کاشکارہوگئے، شہرکے وسطی علاقوں میں سیوریج کی نالیوں کے سلیب ٹوٹ کرمنہدم ہوگئے ہیں اورنالیاں کوڑے کرکٹ سے بھرجاتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کومشکل صورتحال کاسامناکرناپڑتاہے۔حکومت کے موجودہ سسٹم کے تحت سالانہ نالیوں کی صفائی اورتعمیرومرمت کے نام پرکروڑوں روپے کے اخراجات ہورہے ہیں مگرکوئی پیشرفت نہیں ہے بلکہ قومی خزانے کاپیسہ بے دردی سے ضائع کیاجارہا ہے۔
باعث تشویش امریہ ہے کہ بلوچستان میں گڈگورننس کی بدترین صورتحال اورسرکاری محکموں کے درمیان ہمیشہ سے رابطوں کافقدان رہا ہے جومسائل میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے، آئین پاکستان کے تحت ملک میں وفاقی، صوبائی اورلوکل گورنمنٹ کام کررہی ہیں اورصوبائی حکومت مرکزکے ماتحت نہیں مگربلوچستان میں لوکل گورنمنٹ کے پاس کوئی اختیارنہیں میٹروپولیٹن کارپوریشن کواپنے مینڈیٹ سے روک کر سینی ٹیشن اوربرتھ، ڈیتھ سرٹیفکیٹ اورنکاح نامہ کے اجرائ کی حد تک محدودکردیاگیاہے۔ بدقسمتی سے دنیاکے مروجہ نظام کو ختم کرکے کوئٹہ میں ایم پی ایزکواختیاردیاگیا جس سے میروپولیٹن کارپوریشن کوئٹہ مفلوج ہوگیا ہے، آئین کی روسے دیکھاجائے توایم پی ایز کاکام ڈویلپمنٹ نہیں بلکہ ایوان میں جاکرقانون سازی کرناہے،عوام اپنے ووٹ سے ایم پی ایز کومنتخب کرکے اسمبلی بھیجتے ہیں تاکہ وہ جاکران کے بنیادی حقوق اورمسائل کوحل کرنے کیلئے قانون سازی کریں۔
کوئٹہ میں حالت زاراس حد تک ہے کہ 1988میں کارپوریشن میں صفائی ستھرائی کیلئے 978سینی ٹیشن کاعملہ تعینات کیاگیاتھااس وقت میٹروپولیٹن کارپوریشن کی حدودامدادچوک تک تھی مگراس کو بڑھاکر سریاب پھاٹک تک وسعت دی گئی ہے، جبکہ مشرقی سائیڈپہ گوالمنڈی تک سٹی ایریاتھااس وقت اگریہ شہرلٹل پیرس نہیں تھا مگرمعاملات بہترتھے آج2024ئ میں سینی ٹیشن کے اسٹاف کی تعدادوہی ہے،آخری مرتبہ 1994میں آخری بارسالڈویسٹ منیجمنٹ کی مشینیں خریدی گئیں، آج بھی کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر1975کے پرانے ماڈل کے خستہ حال ڈمپرچلائے جارہے ہیں جوانسانی زندگیوں کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں،دنیامیں مروجہ قانون کے مطابق ہر500سولوگوں پہ ایک سینی ٹیشن ورکرہوناچاہئے مگریہاں توحدہوگئی ہے۔
دنیاکے اقوام آئے روزنئے ایجادات کرکے ترقی کررہے ہیں مگرکوئٹہ کے باسی پتھرکے دورمیں زندگی گزارنے پرمجبورہیں۔ یہاں پر باتھ رومز کے فضلے کوٹھکانے لگانے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے۔ شہری علاقوں میں باتھ رومزکے فضلے کودرست طریقے سے ٹھکانے لگانے کی بجائے بڑے پائپ لگاکراس کو سیوریج کی نالیوں میں چھوڑدیاجاتاہے، شہر میں پہلے سے سیوریج کانظام کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے، معمولی بارش کے بعدسیوریج کاپانی گلی کوچوں اورسڑکوں پربہناشروع ہوجاتا ہے جس سے کوئٹہ شہرگندے پانی کے تالاب کامنظرپیش کرنے لگتاہے، اس طرح باتھ روم کامضرصحت فضلہ سیوریج کے پانی کیساتھ پھیل جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں باتھ روم کای تصورنہیں اوروہاں پرلوگ کھلی فضا میں فع حاجت کرکے لے جاتے ہیں جس سے نہ صرف لوگوں میں امراض پھیل رہے ہیں بلکہ اس سے ماحولیات کو بھی نقصان پہنچ رہاہے۔
پاکستان بیوروآف اسٹیٹکس کی رپورٹ کے مطابق 2008-09میں شہری علاقوں کے 95 فیصد گھرانے فلش ٹوائلٹ استعمال کر رہے تھے۔سب سے زیادہ فلش ٹوائلٹ استعمال کرنے کارجحان پنجاب میں 96 فیصدجبکہ بلوچستان میں 75فیصدتھی۔ کوئٹہ میں یہ رجحان88 فیصدتھا۔
باتھ روم سے نکلنے والے فضلے کوٹھکانے لگانے کیلئے (Citywide Inclusive Sanitation)کاطریقہ کارموثراورمفیدہے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ ہرگھرمیں باتھ روم کیساتھ فضلے کو اسٹورکرنے کیلئے سیپٹک ٹینک بنایاجائے اورجب یہ بھرجائے توٹروپولیٹن کارپوریشن کاعملہ اس کوباو¿زرکے ذریعے خالی کرکے لے جائے، جہاں پراس فضلے کوضروری پراسس سے گزاکرتلف کیاجائے، جبکہ باتھ روم میں استعمال ہونے والے پانی کو ٹریٹمنٹ پلانٹ کے عمل سے گزارکرزراعت اورگاڑیوں کی سروس اورتعمیراتی کام میں قابل استعمال بنایاجاسکتاہے، حکومت اس نظام کو پبلک پارٹنرشپ یاپرائیویٹائزیشن کے ذریعے بھی کرسکتی ہے۔جس سے ہم کمیونٹی سطح پرمقامی لوگوں کیلئے روزگارکے مواقع پیداکرسکتے ہیں۔
بحیثیت ذمہ دارشہری ہم سب پر فرض ہے کہ پینے کے صاف پانی کے ضیاع کوروکنے اورسینی ٹیشن کے نظام کی بہتری کیلئے اپنے گھرسے مہم کاآغازکریں۔اس ضمن میں سماجی تنظیم ہوپ بلوچستان کے زیراہتمام فریش واٹرایکشن نیٹ ورک ساو¿تھ ایشیائ (FANSA)پاکستان نے کام کاآغازکردیاہے، مقامی حکومتوں، سول سوسائٹی اورصحافیوں کے استعدادکارمیں اضافے کیلئے تربیتی ورکشاپ بھی منصوبے میں شامل ہیں،آگاہی سیشن منعقدکرنے کے ساتھ صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر بلوچستان میں واش سیکٹرپلان پرکام کرکے م منصوبہ بندی کی جائے گی تاکہ قومی وبین الاقوامی غیرسرکاری تنظیموں کے تعاون سے واش سیکٹرکی بہتری کیلئے مل کرکام کریں اورحکومت کواس قابل بنایاجائے کہ وہ اس معاملے میں عملی اقدامات اٹھائے۔