شہبازشریف کی پوٹلی میں کیا ہے؟

تحریر : انور ساجدی
وزیراعظم صاحب میاں شہبازشریف سعودی عرب کے دورے پر گئے ہیں۔ان کا مقصد سعودی ولی عہد ایم بی ایس سے ملاقات کرنا اور انہیں پاکستان کے اہم اثاثوں کے بدلے سرمایہ کاری پر راغب کرنا ہے۔ ان کی پوٹلی میں سردست ریکوڈک کے نصف شیئرز ہیں جنہیں خریدنے میں سعودی حکومت نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔نصف شیئرز بیرک گولڈ کی ملکیت ہیں ۔اگر سعودی عرب سرمایہ کاری پر راضی ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سونے کے ان ذخائر کو نکالنے کے لئے دونوں فریقین کی پارٹنرشپ ہوگی تاہم یہ واضح نہیں کہ سعودی عرب25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا یا انفرااسٹرکچر بنانے،گوادر تک ریل اور روڈ بنانے پر تعاون کرےگا۔اگر یہ پارٹنرشپ قائم ہوگئی تو حکومت پاکستان کا رول ختم ہوگا البتہ سیکورٹی دینے کی ذمہ داری اس کی ہوگی۔فی الحال تو بیرک گولڈ خام مال نکال کر ایسے ممالک لے جائے گا جہاں تانبے اور سونے کی پروسیسنگ ہوگی۔البتہ سعودی عرب نے زور دیا تو ریکوڈک میں ہی ایک بہت بڑا پلانٹ لگایا جا سکتا ہے اورتیار مال باہر کی منڈیوں میں بھیجا جا سکے گا لیکن یہ ایک مشکل کام ہے کیونکہ اس کے لئے افرادی قوت باہرسے منگوانی پڑے گی۔ سینکڑوں رہائشی کالونیاں یا کنٹینرز کا شہر آباد کرنا پڑے گا۔اس کی بجلی اور پانی کی ضروریات پوری کرنا پڑیں گی۔اس مقصد کے لئے کمپنی بہادر کو اپنابجلی گھر قائمکرنا پڑے گا جبکہ امکان یہی ہے کہ خام مال باہر بھیجا جائے گا۔یہ تو معلوم نہیں کہ وزیراعظم اور کیا آفر کرنے گئے ہیں لیکن امکانی طور پر ان کی پوٹلی میں اگر اورکوئی متاع ہوا تو وہ بھی بلوچستان سے تعلق رکھتا ہوگا۔مثال کے طور پر انہوں نے درخواست کی کہ ایک درمیانہ درجے کی آئل ریفائنری لگانا مقصود ہے تو ظاہر ہے کہ وہ ساحل بلوچستان کی تجویز دیں گے۔سعودی عرب کو آئل ریفائنری کے قیام سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے کیونکہ وہ انڈیا کے مکیش امبانی سے مل کر وہاں پر ایک کھرب ڈالر کی لاگت سے ریفائنری لگا رہے ہیں۔ پاکستان چونکہ بہت بڑی مارکیٹ نہیں ہے اس لئے یہ منصوبہ سرمایہ کاری کے حوالے سے زیادہ سودمند نہیں ہے۔پاکستان کی حکومت سندھ کے بنڈل آئی لینڈ کو ڈویلپمنٹ کرنے کے لئے متحدہ عرب امارات کو کافی عرصہ پہلے پیشکش کر چکی ہے چونکہ اس منصوبہ کے درمیان بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض تھے جو کہ قابل اعتبار ہستی نہیں ہیں اس لئے یہ منصوبہ بیچ میں رہ گیا۔اوپر سے سندھ حکومت نے اپنا جزیرہ بیچنے سے انکار کر دیا۔اسی دوران امارات نے مصر کا ایک جزیرہ خرید لیا لیکن شہبازحکومت امکانی طور پر یو اے ای کے دورہ کے دوران اس منصوبے کا قصہ دوبارہ چھیڑیں گے بشرطیکہ وہ آصف علی زرداری کو قائل کرلیں۔چنددن ہوئے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور سینئر سیاست دان ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا تھا کہ بلوچستان کے پاس اب قابل ذکر اثاثے نہیں رہے ان کی مراد گوادر پورٹ سے تھی جو ڈاکٹر صاحب نے اپنے ہی دستخطوں سے 99سال کے لئے چین کے حوالے کر دی تھی۔ریکوڈک سے مراد تھی جو بیرک گولڈ لے گیا جبکہ ضیاءالحق کے دور سے سیندک چین کے پاس ہے جس کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں ہے۔شہبازشریف کی پوٹلی میں سعودی عرب کو دینے کے لئے اوجی ڈی سی اور پی پی ایل کے قیمتی اثاثے ہیں جن کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔اسے اتفاق کہیے،بدقمستی کہیے مال مفت دل بے رحم کہیے کہ ریاست کو چلانے کے لئے جو اثاثے معدنیات اور ساحل بروئے کار لائے جا رہے ہیں وہ بلوچستان کے ہیں یعنی بلوچستان کے ساحل و وسائل کو بیچ کر یا لیز پر دے کر رقم حاصل کی جائے گی تاکہ ریاست کا پہیہ چل سکے۔بلوچستان کے بعد اگر کسی صوبے کے وسائل برائے فروخت پیش کئے جا سکتے ہیں تو وہ سندھ ہے۔سندھ کے ساحل جو کراچی سے کیٹی بندر تک پھیلا ہوا ہے یہ بہت قیمتی وسیلہ ہے۔دنیا کے اہم سرمایہ کاروں کی نظر اس ساحل پر ہے۔ایک افواہ کے مطابق چین نے یہ مانگ بھی لیا ہے ۔وہ یہاں پر صنعتی زون قائم کرنا چاہتا ہے۔خود ریاست کا یہ عالم ہے کہ کراچی میں تین پورٹس قائم ہیں جن میں سے کراچی پورٹ انگریزوں نے قائم کی تھی ۔قاسم پورٹ بھٹو نے اور چائنا پورٹ جنرل پرویزمشرف نے ایم کیو ایم کو سپورٹ کرنے کے لئے بنائی تھی۔اس پورٹ کی وجہ سے کلفٹن کا خوبصورت اور تاریخی ”بیچ“ ختم ہوگیا ہے۔اگر اس بیچ کی قیمت لگائی جائے تو وہ چائنا پورٹ اور اس کی کمائی سے کہیں زیادہ ہوگی۔ہماری حکومتیں تینوں پورٹس کو چلانے میں ناکام رہیں جبکہ گوادر پورٹ عمران خان کے دور حکومت سے لے کر اب تک ناکارہ ہے جسے کارآمد بنانے کے لئے اربوں روپے کی لاگت سے ڈریجنگ کا کام شروع کر دیا گیاہے۔اسے کیا کہیے کہ ”سی پیک“ بلوچستان میں بننا تھا لیکن اسے پنجاب میں بنایا گیا۔سی پیک کے تحت بلوچستان میں کوئی موٹروے نہیں بنائی گئی اور یہ سوچا نہیں گیا کہ اگر گوادرپورٹ کا ملک کے دیگر حصوں سے براہ راست لنک نہیں ہوگا تو یہ کیسے چلے گا۔کبھی کبھار گماں ہوتا ہے کہ سارا معاملہ مشکوک ہے اور دال میں سب کچھ کالا ہے۔ پنجاب کی مجبوری یہ ہے کہ سمندر کو اپنے پاس نہیں لے جا سکتا ورنہ پورٹ بھی ادھر ہی کہیں بنا دی جاتی۔ہاں بلوچستان کے نکتہ نظر سے یہ درست ہے کہ ایسے منصوبے یہاں نہ بنائے جائیں اور نان شبینہ کو محتاج یہاں کے عوام کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے۔عجیب بات ہے کہ سی پیک کے تحت یہاں کوئی منصوبہ نہیں ہے لیکن سیکورٹی انفرااسٹرکچر تیزی کے ساتھ بنایا جا رہا ہے۔اس کا کیا مطلب لیا جائے؟ بلوچستان بہت بڑا علاقہ ہے یہ دنیا کے کئی ممالک سے بڑا ہے۔ یہ مشرقی یروشلم یاغرب اردن نہیں ہے کہ یہاں پر آبادکاری کی جائے اور مقامی لوگوں کو بے دخل کرکے نکال دیا جائے۔حال ہی میں گوادر سیف سٹی کے نام سے ایک منصوبے کا اعلان کیا گیا جس کا بظاہر مقصد شہر کی سیکورٹی کو یقینی بنانا اور قومی تنصیبات کی حفاظت ہے لیکن اس پر مقامی لوگوں کو تحفظات ہیں اور ان کو شک ہے کہ خاردار تاریں لگا کر شہر کو محصور بنانا اور بلوچستان کے لوگوں کا داخلہ ممنوع قرار دینا ہے۔خود حکومتی تیاریوں کا یہ عالم ہے کہ ناقص منصوبوں کی وجہ سے حالیہ بارشوں میں گوادر سیلاب میں ڈوب گیا۔آئندہ بھی یہی کچھ ہوگا۔چونکہ شہباز حکومت کے پاس اختیارات نہیں ہیں اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی برائے نام حکومت بھی کوئی ایسا اختیارنہیں رکھتی کہ وہ عوام سے روابط بڑھائے اور ان کی تسلی وتشفی کے لئے اقدامات کرے۔نتیجہ کیا ہوگا مزید بدامنی مزید خونریزی اگر یہ سب کچھ ہوگا تو یہاں غیر ملکی سرمایہ کار کیسے آئیں گے۔اگر غیر ملکی سرمایہ نہیں آئے گا تو یہ ریاست کیسے چلے گی اور آگے بڑھے گی۔

معلوم نہیں کہ عالم بالا سے کون یہ منصوبہ زمین پر لے آیا ہے کہ ریاستی اخراجات پورے کرنے کے لئے اس کے جملہ اثاثے کوڑیوں کے مول بیچ دئیے جائیں اگر ایک دو سال کے لئے ریاست کو چلانا مقصود ہے تو کام نکل سکتا ہے تاہم ہمیشہ چلانے کے لئے طویل منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور اہم اداروں کے ناقابل برداشت اخراجات کو کم کرنا پڑے گا۔یہ جو جعلی نو دولتیہ اشرافیہ ہے اس کی مراعات ختم کرنا ہوں گی۔اشرافیہ کی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کی وہ سے بجلی گیس اور دیگر اشیاءکی قیمتوں میں بار بار اضافہ کرنا پڑتا ہے۔اگر اشرافیہ کے پاکستانی محلات اور بیرون ملک پرتعیش رہائش گاہوں کا خرچہ حکومت نہ اٹھائے تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔اس اشرافیہ کے کئی ایسے اراکین ہیں جن کے پاکستان کے تمام بڑے شہروں،گاﺅں، یو اے ای،یورپ اور امریکا میں وسیع و عریض جائیدادیں ہیں۔وہ پاکستان کے وسائل لوٹ کر اپنے اخراجات پورے کر رہے ہیں۔دراصل یہ طبقہ غریب عوام کا خون چوس رہا ہے اور انہیں بھوک افلاس اور فاقوں میں دھکیل کر یہ زندگی گزار رہا ہے۔تصور کریں کہ ایک شخصیت کی گاڑی کے بم پروف ٹائروں کی قیمت 3کروڑ ہے تو ان کے جہازوں،ہیلی کاپٹروں اور لندن کے محلات کے کیا اخراجات ہوں گے؟۔

تمام تر قصے میں اصل حقیقت یہی ہے کہ یہ طبقہ اور ریاستی ادارے سندھ اور بلوچستان کے وسائل پر چل رہے ہیں زیادتی بھی انہی کے ساتھ ہو رہی ہے تاکہ یہ سر اٹھا کر چلنے اور بولنے کے قابل نہ رہیں۔حکمرانوں کو ڈرنا چاہیے کہ اگر بلوچستان کی طرح سندھ کے عوام بھی اٹھ کھڑے ہوئے تو کیا صورتال پیدا ہوگی؟۔چند دن ہوئے سابق وزیراعظم سابق وزیراعلیٰ سندھ غلام مصطفی جتوئی کی بہو ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ رہی تھی کہ وہ عید کے بعد سندھ حکومت کے خلاف ماہ رنگ بلوچ کی طرح تحریک چلائیں گی۔خیر میرمرتضیٰ جتوئی جیسے بڑے جاگیردار کی اہلیہ کوئی تحریک نہیں چلا سکتی۔ایسی تحریک ایک کامن خاتون ماہ رنگ بلوچ ہی چلا سکتی ہے جس کی کوئی کلاس مجبوری نہیں ہے اور جو اپنے وطن کو بچانے کے لئے مزاحمت پر مجبور ہے۔اگر ڈاکٹر مالک اور اختر مینگل حکومتوں کا حصہ بننے کے بجائے مزاحم ہوتے تو ماہ رنگ اور دیگر خواتین کو میدان میں آنے کی کیا ضرورت تھی؟ لیکن اپنی گلزمین کے دفاع کا معیار ماہ رنگ نے اپنے سر لے رکھا ہے۔وہ نہ سہی اور نوجوان آئیں گے اور خوناب رنگوں کی بہار بکھیر دیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں