اسلام آباد اور روالپنڈی سے جنوری میں 18 ہزار سے زائد افغان شہریوں کی وطن واپسی

اسلام آباد (مانیٹر نگ ڈیسک ) جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد سے افغان باشندوںکی واپسی میں تیزی آگئی، جنوری میں 18 ہزار سے زائد افغان شہری وطن واپس روانہ ہوئے، مہینے کے ابتدائی 15 دنوں کے مقابلے میں اختتامی 15 دنوں میں واپسی کا عمل قدرے تیز رہا۔ڈان اخبار میں شائع انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) اور راولپنڈی سے افغان شہریوں کی ملک بدری کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے، 16 سے 31 جنوری کے درمیان فلو مانیٹرنگ رجسٹری (ایف ایم آر) فارم کے ذریعے 291 گھرانوں کے سربراہان کا انٹرویو کیا گیا جبکہ طورخم، چمن، غلام خان، بادینی اور بہرامچا کی سرحدی راہداریوں کے ذریعے وطن لوٹنے والے 9846 افغان باشندوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔آئی او ایم کا کہنا ہے کہ 15 ستمبر 2023 سے اب تک کم از کم 8 لاکھ 24 ہزار 568 افراد افغانستان واپس جا چکے ہیں جبکہ جنوری 2025 سے اب تک ان میں سے 2 فیصد (18 ہزار 577) واپس جاچکے ہیں، واپس لوٹنے والوں میں اکثریت 18 سے 59 سال کی عمر کے افراد (46 فیصد) اور 5 سے 17 سال کی عمر کے افراد (30 فیصد) ہیں، سرحد پار کرنے والے 10 سال سے کم عمر کے بچوں میں سے 502 کو پولیو کے قطرے پلائے گئے تھے۔ہفتہ وار رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واپس جانے والے 10 فیصد گھرانوں کی سربراہی خواتین کررہی تھیں، انہوں نے مزید کہا کہ مذکورہ مدت کے دوران بچوں کی سربراہی والے کسی بھی گھرانے کا اندراج نہیں کیا گیا، مذکورہ مدت کے دوران خواتین (48 فیصد) کے مقابلے میں مردوں (52 فیصد) کی زیادہ تعداد واپس گئی۔رپورٹ کے مطابق گرفتاری کا خوف (78 فیصد) اور مکان کا کرایہ ادا نہ کرپانا (34 فیصد) پناہ گزین گھرانوں کی افغانستان واپسی کی سب سے عام وجوہات ہیں، گھریلو ضروریات کی ادائیگی میں ناکامی (30 فیصد)، بیروزگاری (26 فیصد) اور سماجی دباؤ (9 فیصد)کو بھی واپسی کی وجوہات میں شامل کیا گیا ہے، رپورٹ کے مطابق گرفتاری کا خوف اور واپسی کیلئے سماجی دباؤ میں پچھلے دو ہفتوں میں اضافہ ہوا ہے۔دوسری جانب 89 فیصد افغانوں نے اپنی حتمی منزل کا انتخاب کرنے کی وجہ خاندان کے دوبارہ ملنے کو قرار دیا ہے جبکہ 67 فیصد نے افغانستان میں امداد کی دستیابی کو ایک اور وجہ قرار دیا ہے, واپس لوٹنے والوں میں سے کم از کم 17 فیصد نے یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ افغانستان میں شہریت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔انٹرویوز کے دوران جواب دہندگان کی ایک بڑی اکثریت نے بتایا کہ آمدنی کے مواقع (98 فیصد)، روزگار کا انتظام (89 فیصد)، نئے شہر میں آبادکاری (87 فیصد) اور پناہ (71 فیصد) افغانستان میں واپسی کے بعد سب سے اہم مسائل ہیں۔جواب دہندگان کی نسبتاً کم شرح نے ادویات اور صحت کی سہولتوں کی دستیابی (36 فیصد)، تعلیم تک رسائی (35 فیصد) اور پینے کے صاف پانی کی دستیابی (32 فیصد) کو اپنا بنیادی مسئلہ قرار دیا، جواب دہندگان کی صرف ایک قلیل تعداد (8 فیصد) نے سیکیورٹی کو مسئلہ قرار دیا۔واپس جانے والے افراد پاکستان سے لے کر افغانستان میں اپنی حتمی منزل تک اوسطاً 153 ڈالر ادا کرتے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرحد سے افغانستان میں اپنی حتمی منزل تک پہنچنے کا خرچ (86 ڈالر) پاکستان میں ان کے آبائی ٹھکانے سے سرحد (67 ڈالر) تک پہنچنے کی لاگت سے زیادہ ہے، رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اکثریت نے اپنی حتمی منزل تک جانے کے لئے پک اپ (67 فیصد) اور ٹرکوں (18 فیصد) کا استعمال کیا۔واپس جانے والے تمام افغانوں نے ذاتی سامان کے ساتھ نقل مکانی کے بارے میں بتایا، رپور میں کہا گیا ہے کہ 97 فیصد افغان پناہ گزینوں نے نقد رقم، 95 فیصد نے گھریلو سامان اور 53 فیصد نے پیداواری اثاثے رکھنے کا اعتراف کیا۔آئی او ایم کا کہنا ہے کہ واپس آنے والوں کی اکثریت کا تعلق بلوچستان (43 فیصد)، خیبر پختونخوا (28 فیصد) اور سندھ (20 فیصد) سے ہے۔ ایک چھوٹا سا حصہ پنجاب (7 فیصد) اور اسلام آباد (2 فیصد) سے بھی آیا، پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے آبائی اضلاع عام طور پر سرحد کے قریب واقع ہیں جیسا کہ کوئٹہ (24 فیصد) اور قلعہ عبداللہ (10 فیصد) ۔افغانستان لوٹنے والے پناہ گزینوں کا ایک بڑا حصہ کراچی (20 فیصد) اور پشاور (19 فیصد) سے بھی تعلق رکھتا ہے، جو بالترتیب سندھ اور خیبرپختونخوا میں سرحد سے بہت دور واقع ہیں۔ افغانستان واپس جانے والے زیادہ تر افراد سرحد کے قریب واقع صوبوں کا بھی رخ کرتے ہیں جن میں قندھار (32 فیصد)، ننگرہار (23 فیصد) اور کابل (13 فیصد) شامل ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں