پاک ایران سرحد کی بندش سے لوگ بھوک و افلاس کا شکار ہوگئے، فوری بارڈر کھولا جائے، گاڑی مالکان کی پریس کانفرنس

پنجگور (نامہ نگار) پنجگور بارڈر سے منسلک مزدور گاڑی مالکان کی سعود داد ملا فرہاد نجیب سلیم اشفاق آدم سماجی شخصیت عادل ارباب ،حاجی نورانی ڈاکٹر محمد نور کی سرکردگی میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس، بارڈر کی بندش پر احتجاج حکومت اور بارڈر مینجمنٹ کمیٹی سے بارڈر بندش فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس وقت پورے مکران ڈویژن میں بےروزگاری کا طوفان کھڑا ہوگیا ہے، بارڈر بندش سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں، بچوں کو ایک وقت کی روٹی کھلانا بھی مشکل ہوگیا ہے، تعلیم، صحت کے مسائل نے عوام کو مزید پریشان کردیا ہے بارڈر بندش سے بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی ادا نہیں ہورہے ہر طرف مایوسی پھیل گئی ہے، لوگ بھوک اور افلاس کا شکار ہورہے ہیں، ذمہ داران زمینی حقائق کا ادراک کریں اور عوام کو بارڈر پوائنس سے روزگار کے مواقعے فراہم کریں تاکہ لوگ محنت مزدوری کرکے بچوں کو ایک وقت کی روٹی کھلانے کے قابل ہوسکیں، بارڈر کی مزید بندش عوام کی مایوسی بڑھائے گا کیونکہ اس پوری پٹی میں روزگار کا متبادل ذریعہ بھی نہیں ہے واحد ذریعہ پاک ایران سرحد ہے جہاں لاکھوں لوگوں کی معاشی ضروریات پوری ہوتی ہیں، بارڈر کو بند کرنے سے عام لوگوں کو تکلیف اور پریشانی رہتی ہے، ہم بحیثیت اس ملک کے شہری کے حکومت اور اختیار داروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مطالبہ جو فقط معاشی ہے اس پر توجہ دے اور بارڈر پوائنس کو روزگار کے لیے کھول دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ایک غریب صوبہ ہے جس میں روزگار کے لیے کوئی مواقعے نہیں ہے ماسوائے پاک ایران سرحد سے جہاں لوگ ایرانی تیل اور خوردنی اشیا لاکر اپنی گزربسر کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ بارڈر کا کاروبار بلوچستان کے عوام کی موت وزیست کا سوال ہے بارڈر چلے گا تو یہاں کے لوگ دو وقت کی روٹی کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پال سکتے ہیں، یہ سلسلہ صرف سرحدی اضلاع تک محدود نہیں ہے بلکہ بلوچستان کے لاکھوں لوگ جنکے لیے روزگار کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہے وہ بارڈر سے تیل دوسرے علاقوں میں لے جاکر اپنے گھر چلاتے ہیں جب سے بارڈر غیر اعلانیہ طور پر بند ہے ہر طرف بے روزگاری بھوک نے پنجے گاڑ دیے ہیں گاڑی مالکان سے لیکر مزدور ، ڈرائیور کلنیر گیراج اسپیئر پارٹس کی دکانیں چلانے والے سب بے روزگار ہوکر گھروں پر بیٹھ گئے ہیں، جن لوگوں نے اپنے بچوں کو پڑھائی کی غرض سے ملک کے بڑے شہروں کے کالجز اور مقامی اسکولوں میں لے جاکر داخلے دلائے ہیں اب فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہزاروں بچوں کا تعلیم بھی ضائع ہورہا ہے، بارڈر کی بندش نے تمام طبقہ فکر کے لوگوں کو معاشی مشکلات کا شکار بنادیا ہے، پنجگور بازار بھی بارڈر کی بندش سے شدید مندی کا شکار ہے، دکانداروں کو گاہک نہیں مل رہے، جن کے ہاتھوں وہ اپنی چیزیں فروخت کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتوں کا کام اور ذمہ داری اپنے عوام کو باعزت روزگار کی فراہمی ہے نہ جانے ہمارے حکمران کس دنیا میں رہ رہے ہیں، کیا ان کو پتہ نہیں کہ بلوچستان کے لوگ کس طرح اور کہاں سے اپنی معاشی ضروریات پوری کرتے ہیں کیا پنجگور سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع میں صنعتیں موجود نہیں جن سے لوگ محنت مزدوری کرکے اپنی معاشی ضروریات پوری کرتے ہیں یا دوسرے ذرائع ہیں جن سے ایک وقت کی روٹی کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا نہ جانے ہمارے حکمران کیوں زمینی حقائق سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں جب انکو معلوم ہے کہ بارڈر بند ہونے سے یہاں کوئی الہ دین کا چراغ نہیں جلتا جس سے عوام کے روزگار کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے یہ کہاں کا انصاف اور قائدہ قانون ہے کہ متبادل ذرائع پیدا کرنے سے پہلے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ بارڈر بند کرنے سے لاکھوں انسانوں کا رزق ختم ہوجاتا ہے کیوں ایسے اقدامات کیئے جارہے، کیا قصور ہے ان خاندانوں کا جو بارڈر پر محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کو دو لقمہ کھلاتے ہیں کیا یہی انکی سزا ہے جو پرامن شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھوک ایک ایسی بے صبر سواری ہے جو کسی بھی موڑ پر اپنے سوار کو گرادیتا ہے، آج نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ لوگ بھوک کی وجہ سے چوری بھی کرنے لگے ہیں ظاہر ہے بیروزگاری کی وجہ سے امن و امان کی صورت حال بد سے بدتر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے سرحدی اضلاع سمیت بلوچستان کے دوسرے علاقے بھی بارڈر بندکرنے کی وجہ سے بہت ہی مشکل حالات کا شکار ہیں، پنجگور جس کی اکثریتی آبادی اپنی معاشی ضروریات بارڈر سے پورے کرتے آئے ہیں، آج نان نفقہ کے محتاج ہوچکے ہیں، ایسے گھر ہیں جہاں فاقے چل رہے ہیں، ظاہر ہے جو لوگ دیہاڑی پر گیراج، ڈپوﺅں پر کام کرتے تھے، اب ان کے کمانے کے تمام راستے بند ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم آج کے اس پریس کانفرنس کے توسط سے کورکمانڈر بلوچستان، وزیراعلیٰ، آئی جی ایف سی ساﺅتھ، کمشنر مکران، کمانڈنٹ پنجگور رائفل، ڈپٹی کمشنر پنجگور سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پنجگور سمیت بلوچستان کے عوام کی معاشی مشکلات کو مدنظر رکھ کر سرحدی گزرگاہوں کو روزگار کے لیے کھول دیں تاکہ یہاں کے محنت کش عوام کو دو وقت کی روٹی کمانے کا موقع میسر آسکے اور بغیر کسی پریشانی کے وہ اپنے بچوں تعلیم اور دیگر ضرورتوں کا بندوبست کرسکیں۔ انہوں نے کہا ہم ضلعی انتظامیہ کو بارڈر کھولنے کے لیے پیر تک کی مہلت دیتے ہیں کہ وہ پنجگور کے عوام کی ضرورتوں کا ادراک کرکے بارڈر نوبت لسٹ جاری کرے بصورت دیگر مکران رخشان ڈویژن کے عوام بارڈر ٹریڈ یونینوں اور بلوچستان کے دیگر محنت کشوں سے صلاح ومشورہ کرکے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ آخر میں انہوں نے مطالبات پیش کیے جن کے مطابق پنجگور سمیت بلوچستان کے تمام فیول کراسنگ پوائنٹ کو فوری طور پر کھول دیا جائے۔ لوگوں کے شناختی کارڈ فوری واپس کیے جائیں، تمام بلاک شدہ ای ٹیگ مالکان کو دوبارہ فزیکل ویریفکیشن کا موقع دیا جائے، دونوں مالکان کی رضامندی سے نارمل ٹرانسفر کی اجازت دی جائے، جائین پروم کے تمام ایف آر سی کیسز کو فوری حل کیا جائے، ڈیتھ کیسز کو فوری ٹرانسفر کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں