بلوچستان کے حقوق کی توانا آواز خاموش ہوئی!

تحریر: چنگیز بلوچ تربت
قوموں کی عروج وزوال، ترقی وپستی، زیست وموت میں وقت وحالات کے علاوہ شخصیتوں اورافراد کا کردار بھی رہاہے۔ جنگ پلاسی میں جعفروصادق دغابازی وغداری نہ کرتے تو شاید سراج الدولہ اس طرح پسپا نہ ہوتااورقدیم تہذیب کے سرزمین ہند 200سال تک فرنگیوں کا دست نگر نہ بنتا۔ سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد اگر اتاترک پیدانہ ہوتا تو اس شکست وریخت کے بعد ترک شاید دوبارہ دنیا میں کھڑے ہوتے۔ بلوچ حکمرانی کے آخری خان اگر اس طرح ”لگوری“ نہ دکھاتا تو بلوچ کے حالات آج شاید مختلف ہوتے۔
اپنے عہدکے نمائندے اپنی جرات وفہم وفراست سے قوموں کومعراج تک پہنچاتی ہیں۔ کوتاہ بین، بونا اورپست ہمت انہیں تاریخ کے کھنڈرات میں دفن بھی کرتے ہیں۔جن قوموں کاہاتھ تاریخ اور وقت کے نبض پررہا وہ تاریخ کے پہیہ کواپنے حق میں موڑ دیتے ہیں اورجووقت، تاریخ اورتاریخی ضرورتوں کا ادراک نہیں رکھتیں توتاریخ انہیں اپنے اوراق سے نکال دیتی ہے۔
عہد حاضر کی اس نئی تہذیبی، معاشی، سیاسی و عالمی گاؤں میں محکوم اورمظلوم اقوام کابقاء اور وجودکیسے ممکن ہو۔ یہی سوچ، یہی فہم ویہی ادراک رکھنے والے شخصیت کادوسرا نام میر حاصل خان بزنجو تھا۔ جو20اگست2020؁ء میں کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں ایک موذی مرض سے لڑتے لڑتے خاک میں پوشیدہ ہوئے۔
حاصل خان بزنجو کی رحلت ایک فرد، ایک قبیلہ، ایک خاندان اور ایک جماعت کا نقصان نہیں بلکہ یہ ان تمام قومی سانحات میں ایک سانحہ ہے کیونکہ وہ اپنے عہد کاپکارتھا، اپنے وقت کا ایک گرجدار آواز تھا، اور اپنے دور کاایک تحریک تھا۔ ان حالات میں ان کی موجودگی ان کے قوم کیلئے ناگزیر تھا وہ ان خوبیوں اور صلاحیتوں کا مالک تھا جو ایک قوم پرست اور وطن دوست رہنما میں ہونی چاہئیں، جن کا قوم اور وطن ان پرناز کرے۔ وہ ایک ایسا باہمت،جری اورراست گو انسان اور سیاستدان تھا جو اپنے نظریئے، سوچ اور اصولوں کی پاسداری میں آمر اورجابر کے سامنے ڈٹ جاتا۔ بلوچ وبلوچستان کی وجود اوربقاء ان کی سیاست کامحورتھا اس لئے آج دنیا انہیں بلوچ قوم پرست سیاستدان کے نام سے جانتااوریادکرتاہے اورجب بھی بلوچستان کا سوال آجاتاتو دنیا اسے ڈھونڈتا اوران کابیانیہ لیتا۔ ایک مجلس میں کہنے لگا کہ بلوچستان اپنے جغرافیہ کی بدولت ہمیشہ طاقتور قوتوں کا مرکز نگاہ رہاہے اور آج اس معیشت اورمارکیٹ کے دورمیں ان کی حیثیت دوچند ہوگئی ہے اورہمیں ڈرہے کہ سانڈوں کی لڑائی میں بلوچ کی حیثیت اور وجود کا سوال کیسے باقی رہے۔ اس قحط الرجال، سیاسی بے اصولی، نفسانفسی اور فکری بانجھ پن کے زمانے میں ان کی اچانک رحلت اس ملک کے مظلوم طبقات ومحکوم اقوام کیلئے ایک ایسی فکری ونظریاتی خلاء ہے جن کی کمی نہ جانے کتنے مدتوں تک محسوس ہوتی رہے گی۔ وہ نظریاتی وفکری سیاسی کارکنوں کیلئے ایک ایسے سایہ دار درخت کی مانندتھا جن کے چھاؤں تلے جمع ہوکر وہ قومی جبر وطبقاتی ناانصافی کے خلاف متحدہوکر لڑنے کاحوصلہ پاتے اور موجودہ حالات میں بلوچستان کوان کی جتنی ضرورت اب تھی شایدماضی قریب کی تاریخ میں اتنی نہ تھی۔ ان کا خواب اورمشن تھا اور وہ ان کا ہمیشہ ذکرکرتے کہ جب تک بلوچستان میں ایک ایسی جماعت کے قیام میں ہم کامیاب نہیں ہوں گے کہ جن کے پرچم تلے تمام وطن دوست، قوم پرست اورترقی پسند قوتیں متحدنہ ہوں تک دنیا ہماری بات نہیں سنے گی۔ موجودہ تقسیم درتقسیم کی صورت میں، وہ ایک ایسی جماعت کے قیام کیلئے اپنی عمر کے آخری لمحے تک جدوجہد کرتے رہے۔ ہربلوچ کے درودروازہ کودستک دیتا رہا۔ جب سال قبل ان کی اس موذی مرض کی تشخیص ہوئی اور اسے خبرتھی کہ اب شاید وہ اس فانی دنیا میں زیادہ دیر رہ نہیں سکتے لیکن ان حالات میں بھی آپ انتہائی بہادری اورجرات کے ساتھ اپنے مشن ومقصد کے حصول کیلئے پہلے سے زیادہ سرگرم رہے۔ دوست اس دوران ان کوآرام کامشورہ دیتے لیکن وہ اپنے مشن کیلئے کسی کے مشورے کوخاطرنہیں لاتا۔ایک دفعہ کہنے لگا کہ موت کوتوکہیں بھی کسی شکل میں آناہے انسان اپنے مقصد ومنزل سے دور اور غافل کیوں رہے۔
میر حاصل بزنجو اپنے عہد کا وہ جرات مند سیاستدان تھا جو اس فاشسٹ سیاست میں رہ کر فاشسٹوں کے جبرکے خلاف بلند آواز میں براہ راست ان کا نام لیکر ان کوتنبیہ کرتے تھے جہاں بڑے سے بڑے تیس مارخان ان کے نام لینے کے تصورسے گھبراجاتے۔
میر حاصل بزنجو کی رحلت کے بعد بلوچ اور ان کی پارٹی حقیقی معنوں میں یتیم ہوگئی ہیں اس سے قبل میرمولابخش دشتی اور ڈاکٹریاسین بلوچ کی اچانک جدائی میں اس جماعت کے نظریاتی وفکری کارکنوں کو ناقابل بیان نقصان اٹھانا پڑا۔ گوکہ اس جماعت میں ان کی کمی کی شدت آج بھی محسوس ہوئی ہے لیکن بزنجو جیسے قدآور رہنما کی موجودگی ان کے حوصلوں کوبڑھاتی تھی اوران کی موجودگی امیدکی ایک شمع تھی اس کے ساتھ وہ اس بدبخت ملک کے تمام ترقی پسندوں، لبرل قوتوں اورحقیقی جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کیلئے بھی امیدکی ایک کرن تھے۔
اب میر حاصل خان کی اس جلائی ہوئی شمع کو ان کے باقی دوست وقت کے طوفانوں سے کیسے بچائیں گے یہ ان کیلئے اب پہلا اوربنیادی سوال ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں