مردہ پرست سماج

تحریر محمداقبال مینگل

1958 میں باباٸے بلوچستان کے گھر میں آنکھ کھولنے والا بزنجو فیملی کے چشم وچراغ سیاست میں شمع بن کر روشنی بکھیر تھا رہا اور موت کے ہاتھوں بالاخر یہ چراغ 20اگست 2020 کو گل ہوگیا۔ خضدار کے تحصیل نال میں پروان چڑھنے والا یہ شخص دنیا سیاست میں ایک نام چھوڑ کر داعی اجل کرگیا۔ کون یقین کریگا کہ پسماندہ بلوچستان کے پسماندہ ضلع سے تعلق رکھنے والا شخص پاکستانی سیاست میں راج کریگا کہ جس کے سامنے بڑے بڑے سیاستدان دوزانوں ہوکر بیٹھ جاتے یقینا یہ باباٸے بلوچستان کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ میرحاصل خان بزنجو پاکستان کے چوٹی کے سیاستدانوں میں شمار ہونے لگا تھا جہاں تک سیاسی تربیت کی بات ہے تو سیاسی تربیت کا کوئی مخصوص ادارہ نہیں ہوتا بلکہ بچپن سے انسان معاشرتی تربیت کے ذریعے سیکھتارہتا ہےاوراس کے اندر ایک سیاسی ذہن اور رجحان تشکیل پاتا ہےاور یہ تربیت میرحاصل خان کو باباٸے بلوچستان کے طفیل ودیعت میں مل چکاتھا۔ سماجی تغیرات وتجربات کا تربیت میں اہم رول ہوتاہے جو کہ خاندان پر منحصر ہے کہ خاندان کی نوعیت کیاہے انسان اس نوع کی تربیت کو خاندان سے ہی اخذ کرتاہے سیاسی تربیت اور رجحان سازی میں خاندان کا بنیادی کردار ہوتا ہے گوکہ انسان کا پہلا سیاسی اسکول ان کا گھر ہی ہوتا کہ وہ واضح سمت کی نشاندہی عطاکرتی ہے اور برادری تحفظ و مفادات کی سیاست کا سبق پڑھاتی ہے اور وہاں ہی سیاسی ذہنوں کی آبیارہ ہوتی ہے اور وہ پروان چڑھنے لگتاہے تو یہ آبیاری باباٸے بلوچستان میر غوث بزنجو نے بدرجہ اتم کرلیاتھا، اس سیاسی اسکول کے بعد دوسرا سیاسی مدرسہ میرحاصل بزنجو کا طلبہ پلیٹ فارم تھا کہ جہاں وہ خوب متحرک رہے۔ میرحاصل خان بزنجو کو حلقہ احباب اور طلبہ پلیٹ فارم کے غیر رسمی تعلیم، میرغوث بخش بزنجو کی کرشماتی شخصیت نے بہترین سیاسی بصیرت کے حامل لیڈر بنادیا اور وہ تاحیات سیاسی اصولوں پر کاربند رہے۔انہوں نے بلوچستان کا نام روشن کرکے رکھ دیا ان کی سیاست کا محور انتہاٸی بلند تھا وہ بلوچستان کے لیے عالمی سطح پر کام کرتے ان کی سیاست کی بدولت بلوچستان کی ہرجگہ نیک نامی ہوتی۔ بلوچستان کے حقوق کےلیے ہمیشہ جدوجہد کرتے رہے بلوچستان کی ایک توانا آواز تھا جوکہ اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہوا۔ ان کی شخصیت کا اندازہ ان کی نماز جنازہ اور بعدازاں تعزیت کے لیے والے شخصیات اور ان کے تاثرات سےبخوبی لگایاجاسکتاہے کہ بلوچستان کے اس عظیم بیٹے کا لیول کیا تھا، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی نال آمد کے وقت میں یہ سوچ رہاتھا کہ ترقی یافتہ صوبوں سے تعلق رکھنے والے یہ سیاسی حضرات جب تعزیت کے لیےآرہے ہونگے تو خزانوں سے مالاں مال میرے پسماندہ بلوچستان کی سنگلاخ جگہوں اور دشوار راستوں سے گزر کر کیا فیل کررہے ہونگے کہ اس پسماندہ دیہی علاقہ اور ان بوریا نشین لوگوں کے درمیان کیسا ہیرا تیار ہوگیاکہ جس کی موت پر مخالفیں بھی افسردہ ہے۔ میرحاصل خان بزنجو کو یہ امتیازی حیثت حاصل تھی کہ سیاست میں ہوتے ہوٸے بھی ان کے مخالفیں آٹے میں نمک کے برابر تھے انہیں تمام سیاستدان عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے۔ بلوچستان میں جھالاوان کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے کہ بلوچستان کی بڑی پارٹیوں کو لیڈ کرنے والے سیاسی شخصیات یہاں کے ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں کے سیاسی شخصیات کے درمیان اختلاف دشمنی کی حد تک موجود ہے ایک ساتھ بیٹھنا بھی ان کو گوارا نہیں ہوتے بعض قدآور شخصیات ایسے بھی ہیکہ ان کا آپس میں خونی رشتہ ہے مگر سیاسی اختلافات نے انہیں بہت دور کردیاہے کہ وہ اب اپنی غمی اور خوشی میں بھی شریک نہیں ہوسکتے مگر میرحاصل خان بزنجو وہ واحد شخص تھا کہ جو سب کے لیے قابل احترام تھا جھالاوان کے ہرسیاسی وقباٸلی شخص ان کی نمازہ جنازہ اور تعزیت میں نظر آٸیں اور ایک دوسرے کے شدید مخالفیں بھی یہاں اکھٹا ہوٸے۔ میرحاصل خان بزنجو کی رحلت بلاشبہ بلوچستان کے لیے ایک بہت بڑے سانحہ ہےآج بلوچستان کے ہرایک شخص کی زبان پر میر حاصل خان بزنجو کی مدح ہے ان کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا ہرکس و ناکس کو احساس ہے۔ ان کی موت کے بعد ہی یہاں کےلوگوں کا ان کی قیمت کا احساس ہورہاہے لیکن میرحاصل خان بزنجو کو زندگی میں انہیں وہ عزت واحترام یہاں کے لوگ نہ دے سکے کہ جس کا وہ مستحق تھا اور اپنی انا کی وجہ سے میرحاصل خان بزنجو سے وہ فاٸدہ اور تربیت حاصل نہ کرسکے جو کہ کرنا چاہتے تھا پوری زندگی مخالفت کرکے اب موت کے بعد مدح وصحراٸی کا کیا فاٸدہ ہے۔ اگر اسے مردہ پرست سماج کہاجاٸے تو بےجانہ ہوگا

اپنا تبصرہ بھیجیں