بلوچستان قاتل شاہراؤں کی آماجگاہ

زبرین بلوچ
رقص کا مزہ اس وقت آتا ہے جب کسی کوہ کے دامن میں بیٹھے ہوں اور محبت کے گیت ہو تو کچھ لمحے کے لئے اس دنیا سے دور کہی کسی اور دنیا میں گھومنا جیسا لگتا ہے۔ صرف یہی نہیں اگر ساتھ میں رفیق بھی ہو اور محبت کی کہانیاں ہوں تو اور بھی زیادہ چارچاند لگ جاتا ہے۔ محبت ایک قدرت کی عطا کردہ ایک نعمت ہے جو ہر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے مگر فرق یہی ہوتا ہے کہ کچھ کے اندر سے پیاس رقص کی نکلتی ہے تو کچھ کے اندر میں گیت کی تڑپ ہوتی ہے۔ رقص انسان کو زمین سے اٹھا کر آسمان میں لے جاتا ہے اور وہی پہ چند لمحے اس دنیا سے اور اس کے ہزاروں غموں سے نجات کا موقع فراہم کرتا ہے۔
مگر بلوچستان میں رقص بالکل اپنے برعکس کام کرتا ہے زمین سے انسان اوپر تو جاتا ہے مگر واپس اگلے جنم میں مل سکتا ہے مگر اس جنم میں نہیں۔ جی ہاں بلوچستان ایک ایسی سرزمین ہے جہاں پہ شاہرائیں انسانی جانوں کے قاتل بنی ہوئی ہیں نہیں معلوم یہ شاہراؤں کی کیا دشمنی ہے یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی پیاس کب ختم ہوگی مگر یہ معلوم ہے کہ یہ خون کے پیاسے ہیں یہ معصوم جانوں کے بھوکے ہیں ایک دن سے لے کر سو سال تک کی عمر کے لوگ اس سے نہیں بچ سکتے پتا نہیں یہ کس جنم کا آدم خور ہے جس سے جوان، بوڑھے، عورت، مرد، چھوٹے،بڑے، جادوگر، مفتی، علماء، طلبہ، استاد، ڈرائیور، گلوکار، فٹبالر، شاعر زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے لئے بھوکے ہیں نہیں معلوم یہ آدم خور کی موت کب ہوگی اور کب یہاں کے لوگوں کو نجات مل جائیگی۔
مملکت خداداد کے صوبہ بلوچستان میں کئی شاہرائیں ہیں جن پہ روزانہ کی بنیاد پر موت کا رقص ہوتا ہے چھوٹی گاڑیاں ہوں یا بڑی۔موٹر سائیکل ہو یا سائیکل ہو حتیٰ کہ کہ پیدل جانے والے بھی محفوظ نہیں۔ پنجگور شاہراہ ہو یا کوسٹل ہائی وے۔ کراچی کوئٹہ شاہراہ ہو یا ایم 8 موٹر وے۔ کچلاک ڈیرہ اسماعیل خان شاہراہ ہو یا ڈیرہ غازی خان۔تفتان کا راستہ ہو یا پھر بولان کا آپ کہیں پہ بھی محفوظ نہیں ہیں یہاں سب کے سب کالی شاہرائیں قاتل ہیں جو یہاں کے لوگوں کو قتل کرتی جارہی ہیں اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے۔
ایک سماجی ادارے (بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی) کی رپورٹ کے مطابق سال 2020 کے مہینے جولائی میں "1099 حادثات ہوئے ہیں جن میں 1462 افراد زخمی جبکہ 123 اموات ہوئے ہیں "۔ ایک مہینے میں یہاں کی شاہراؤں پہ اتنے حادثے ہوئے ہیں تو ایک سال میں کتنے ہونگے جن کا اندازہ لگانا مشکل ہوسکتا ہے۔
موٹروے پولیس نہ ہونے کے باعث اتنے سارے حادثات پیش آتے ہیں صرف موٹروے پولیس نہیں بلکہ کئی حادثات ناتجربہ کار ڈرائیوروں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ مسافر بس مالکان بھی یہاں کے لوگوں کے قاتل ہیں جو دو گھنٹے بچت کی خاطر کئی جانوں کو قتل کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہاں ٹریفک کا زیادہ ہونا اور شاہراؤں کا سنگل ہونا حادثات کی وجہ بن رہے ہیں حکومت وقت کو اس طرف غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے انسانوں کے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے اپنے ملازمین کے لئے کہ وہ بھی ان شاہراؤں پہ سفر کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں