بلوچ قوم پرستی اور طبقاتی جہدوجہد

پروفیسر غنی طارق

بلوچ قوم پرست "تنقید اور خود تنقیدی ” جیسے نظریاتی اصول کی پاسداری سے مبرا مصلحت پسندی کے شکار ہیں ۔ جن کی اس منافقانہ رویے نے نظریاتی بے راہ روی کو جنم دیا ہے ۔ نتیجتا قوم پرست جماعتیں قومی اور طبقاتی حوالے سے متحد اور منظم ہونے کے بجائے فرینڈلی کلب بن چکے ہیں جو سیاست کو اپنے طبقاتی مفادات کے لئے ایک ڈھال بنا چکے ہیں ۔ یہ لوگ طبقاتی سیاست کو فرسودہ عمل قرار دیتے ہوئے اسے وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں حالانکہ سیاست اور طبقات کے مابین رشتہ صدیوں پر محیط ہے ۔ سیاست وہ ہتھیار ہے جسے مقتدر طبقہ اپنے طبقاتی حیثیت کے دفاع اور محنت کش طبقے کو دائمی غلام بنانے کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ بلوچ قوم پرستانہ سیاست اس تناظر میں کہاں کھڑی ہے اس کا جائزہ لیتے ہوئے طبقاتی جہدوجہد کے تقاضوں کا تعین کرنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔
بلوچ من حیث القوم قبائلی اور نیم جاگیر دارانہ سماج میں مقید ہے ۔ جس کے سبب دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح سیاست پر بھی اس کے اثرات مضبوط ہیں جس میں محنت کش طبقہ صدیوں سے اشرافیہ اور اس کے ہمنوا افسر شاہی کے جبر و استحصال کا شکار ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے بعض نام نہاد ترقی پسند بھی اس اشرفیائی مرض میں مبتلا ہیں جو متوسط طبقے کی موقعہ پرستانہ رویوں کو اپناتے ہوئے محنت کشوں کی قائدانہ کردار کے ابھار کو سبوتازکرنے کی تدابیر کر رہے ہیں ۔ ان نام نہاد ترقی پسندوں نے اپنے گروہی مفادات کی خاطر پہلے مرحلے میں محنت کش طبقے کے متحرک سیاسی کارکنوں کو جماعتی صفوں سے بے دخل کرکے رجعت پسند اشرافیہ اور لمپن پرولتاریہ سے راہ و رسم بڑھائے جب کہ اب یہ لوگ طبقاتی سیاست کے علمبردار جماعت ” بلوچ عوامی موومنٹ” کے خلاف منفی حربے استعمال کرتے ہوئے محنت کش طبقے کے صفوں میں بدگمانیاں پیدا کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں ۔
ترقی پسند سیاسی کارکنوں کے لئے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ انہیں اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ قدامت پسند اشرافیہ اور مڈل کلاس موقع پرست قومی اور طبقاتی جہدوجہد کو اپنے طبقاتی مفادات سے متصادم سمجھتے ہوئے سماجی ارتقاء کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ بنی رہی ہیں ۔
وقت اور حالات نے بھی ان مفاد پرست طبقات کے چہروں سے عوام دوستی اور ترقی پسندی کا پردہ چاک کردیا ہے ۔ ان طبقوں نے غریب پروری کی آڑ میں جس دیدہ دلیری سے جاگیروں اور خوبصورت محلات کے مالک بن گئے ہیں وہ سب کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں ۔ ان حالات میں باشعور اور عوام دوست سیاسی کارکنوں کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی گوشہ نشینی ترک کرتے ہوئے مظلوم طبقے کی حقیقی جماعت BAM کے کاروان میں شامل ہوں تاکہ محنت کشوں کو منظم کرتے ہوئے اشرافیہ اور اس کے ہمنوا مڈل کلاس کے استحصالی حربوں سے نجات دلایا جاسکے ۔

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں، شکریہ

اپنا تبصرہ بھیجیں