بلوچستان، سوشل میڈیا کے حوالے سے صوبائی حکومت کے نوٹیفیکشن کوواپس لینے کے لیے حکام کو شہری کا لیگل نوٹس
کوئٹہ:بلوچستان حکومت کا ملازمین کا سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے کیا گیا نوٹیفیکیشن حکومت کے اپنے بنائے ہوئے معلومات تک رسائی کے بل سے بھی متصادم ہے۔ 1973 کے آئین میں فردِ واحد کی پرائیویسی کو ناقابلِ خلاف ورزی حق قرار دیا گیا ہے جس میں شہریوں کی عزتِ نفس، ان کی پرائیویسی اور زندگی کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ کوئی بھی شخص خواہ وہ ملازم ہی کیوں نا ہو کے بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ جبکہ آئین پاکستان معلومات تک رسائی کا حق ہر شہری کو بلا امتیاز دیتا ہے۔ جبکہ یہ نوٹیفکیشن شخصی آزادی پر آئین میں موجود قوانین سے متصادم ہے۔ حکومت دو دن کے اندر اپنا جاری کردہ نوٹیفیکیشن واپس لیتے ہوئے ملازمین سے معافی طلب کریں ورنہ انصاف کیلئے عدالت عالیہ سے رجوع کرتے ہوئے آئینی درخواست دائر کرینگے یہ مطالبہ سلیم اخترایڈوکیٹ سپریم کورٹ نے بایزیدخان خروٹی کی جانب سے چیف سیکرٹری، پرنسپل سیکریٹری برائے وزیراعلی اورسیکرٹری۔ ایس اینڈ جی اے ڈی حکومت بلوچستان کو جاری کردہ اپنے لیگل نوٹس میں کیا ہے لیگل نوٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ نوٹیفیکیشن کسی ضابطے اور قانون کے بغیر جاری کیا گیا ہے۔ بیڈا کا کونسا سیکشن واٹس ایپ اور سوشل میڈیا سے منع کرتا ہے بیڈا کا قانون سوشل میڈیا کے بارے میں بالکل خاموش ہے۔اس نوٹیفیکیشن کے ذریعے سوشل میڈیا سے دور رکھنے کے لیے بیڈا کے قانون کا استعمال یا ہتھکنڈا انتہائی غیر قانونی ہے۔ اور اس کاغلط استعمال ہے آپ کا وزیراعلی کی ایما پر ہونیوالا نوٹیفکیشن تین لاکھ ملازمین کو ہراساں کرنے کی کوشش ہے۔اس سے آپ نے تین لاکھ ملازمین کو جدید دنیا کی معلومات تک جلد رسائی کو غیر قانونی طور پر روکا ہے جس کی نظیر کسی بھی ملک میں نہیں ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکلز کی 280 میں سے پہلے 40 آرٹیکلز میں عوام کے حقوق، اصول حکمت عملی یعنی حکومتی ذمہ داریوں کا ذکر ہے آئین کا آرٹیکل نمبر 4 ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ اسکے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔ خصوصا کوئی ایسی کاروائی نہ کی جائے جو کسی شخص کی جان، آزادی، جسم، شہرت یا املاک کے لئے مضر ہو، سوائے جبکہ قانون اسکی اجازت دے۔ کسی شخص کے کوئی ایسا کام کرنے کی ممانعت یا مزاحمت نہ ہوگی جو قانونا ممنوع نہ ہو اور کسی شخص کو کوئی ایسا کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جس کا کرنا اسکے لئے قانونا ضروری نہ ہو۔ اور موبائل فون تمام ملازمین کی نجی املاک میں آتا ہے اور آپکا جاری کردہ یہ نوٹیفیکیشن آئین کا آرٹیکل نمبر 4 سے متصادم ہے آرٹیکل 8بھی بنیادی حقوق کے خلاف قوانین کالعدم ہوں گیاس بابت پی ایل ڈی نمبر 2017/31 میں سندھ ہائی کورٹ قرار دے چکی ہے کہ بنیادی حقوق بنیادی حقوق کونے تو عام معنوں میں لیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسکی تشریح عموی الفاظ میں کی جاسکتی ہے۔ جبکہ پی ایل ڈی 2014/132 میں پشاور ہائی کورٹ حکم دے چکی ہے کہ دستور کے دو آرٹیکلز کے درمیان عدم یکسانیت کی صورت میں صرف مجلس شوری کوا سے مل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ بنیادی حقوق کی حفاظت کیلئے اقدامات کرے لفظ زندگی جو کہ آئین کے آرٹیکل 9 میں استعمال ہوا ہے کے معنی محدود نہیں ہیں بلکہ اس میں انسانی زندگی کا ہر ایک پہلو شامل ہے آئین کے آرٹیکل نمبر 9 کی رو سے کہ کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گاآئین پاکستان کے 1973 کے آئین میں شہریوں کو دیئے گئے بنیادی حقوق جو کہ آئین کے دفعات 8 تا 28 تک بنیادی حقوق کی ضمانت دیتی ہے جس میں سرکاری ملازمین بھی آتے ہیں آپکا جاری کردہ یہ نوٹیفکیشن آئین کے آرٹیکل 8تا28سے متصادم ہیاسی طرح آئین کےآرٹیکل 19 اور 19 اے پاکستان کے تحت ہر شہری کو آزادی تقریر و تحریر کا حق حاصل ہے آپ کے اس عمل سے میڈیا کا بطور واچ ڈاگ کا تصور بلکل ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ بلوچستان کے مسائل کو مین اسٹریم میڈیامیں نہ تو جگہ مل رہی ہے اور نہ ہی کوئی اہمیت دی جاری ہے کیا اگلا آرڈر سرکاری ملازمین کوحکومت بلوچستان کا یہ ہوگا کہ وہ اپنے گھروں میں ٹی وی دیکھنا چھوڑدیں۔کیونکہ اکثر ٹی وی پروگراموں میں بھی حکومت بلوچستان کی ناقص کارکردگی پر تنقید ہوتی ہے ان سب تضادات اور غیر قانونی عوامل کو دیکھتے ہوئے آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اس نوٹیفیکیشن کودو دن کے اندر طور پر واپس لیں اور ملازمین سے غیر مشروط معافی مانگیں بصورت دیگر عدالت عالیہ سے رجوع کرتے ہوئے آئینی درخواست دائر کیا جائے گا۔


