"لاورث کراچی”
تحریر: بلاول ساجدی
کہنے کو کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اور مختلف ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔ اس شہر سے سال میں اربوں روپے کے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ کیونکہ پاکستان کا سب سے بڑے کاروباری مراکز بھی اس شہر میں موجود ہیں۔
کراچی شہر میں ہر قوم کے لوگ بسے ہوئے ہیں۔ اس شہر میں تین اقسام کے لوگ رہتے ہیں ایک بلکل غریب جو کھانے کے لیے بھی دوسروں کے محتاج ہے۔نہیں وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دے سکتے ہے نہیں انکے جاہز خواہشات پوری کر سکتے ہیں۔ اور خداءنخوستہ اس طبقہ کا کوئی شخص کسی مرض میں مبتلا ہو کر بیمار ہو جائے تو اس کے خاندان کے لیے وہ دن قیامت سے کم نہیں ہوتا۔کیونکہ انکے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں ہوتا ہے تو علاج کے لیے کہاں سے آئے گئے۔ اگر سرکاری اسپتال میں علاج کے لیے جاتے ہیں تو اسپتال انتظامیہ کی جانب سے لاوارثوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور ٹھیک طرح سے علاج نہیں کیا جاتا ہے۔اور دوسرا طبقہ ہے درمیان کے لوگ مطلب نہیں یہ زیادہ غریب ہے نہیں زیادہ امیر ہے۔ اس طبقے لوگ درمیان کی زندگی گزارتے ہیں اور اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے تمام خواہشات کو پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور آخری طبقہ ہے جو امیر طبقہ ہے انکو ان تمام معملات میں کبھی بھی پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔
کراچی شہر میں کاروباری پہیہ بہت تیزی سے چلتا ہے۔ اگر ایک دن اس شہر کا کاروباری پہیہ جام ہوتا ہے۔ اس دن حکومت پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان کا سامنا ہوتا ہے۔مگر بات یہاں آتی ہے کہ حکومت نے اس شہر اور اس میں بسنے والی عوام کے لیے کیا ہے۔ صرف اور صرف کراچی کی عوام کو اذیت دی ہے۔
پہلے دور میں کراچی کی سڑکوں کو روزانہ رات کے وقت پانی کے ساتھ صاف کیا جاتا تھا۔مگر اب سڑکوں پر کچڑوں کی ڈھیر نظر آتے ہیں۔ اور کہی کہی دنوں تک انکو اٹھایا نہیں جاتا ہے۔ انکی بدبو سے لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اسکے علاؤہ کراچی میں حکومتی چیلاء کے الیکٹرک کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے کراچی کی عوام کی زندگی کو اجیرن کر دیا ہے۔ کراچی شہر کی ٹریفک نے اسکی عوام کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے لوگ روزانہ گھنٹوں ٹریفک کے رش میں پھنس کر اپنی منزل کو پہنچ جاتے ہیں۔
اب بات آتی ہے بارش کی۔ پہلی بات یہ ہے جون کا مہینہ شروع ہوتے ہی مون سون کی بارشوں کا امکان ہوتا ہے۔اور اسکے علاؤہ محکمہ موسمیات نے بھی پہلے سے پیشنگوئی کی تھی کہ کراچی میں اس مرتبہ بہت خطرناک ترین بارشوں کا امکان ہے۔ مگر سندھ حکومت یہ کہنا ہے کہ محکمہ موسمیات کی طرف سے ہمیں خبردار نہیں کیا گیا ہے۔ کراچی کی عوام کو معلوم تھا مگر سندھ حکومت نہیں معلوم تھا۔ ٹھیک ہے یہ بات تسلیم بھی کرتے ہیں۔ مگر آج کا دور انٹرنیٹ کا دور ہے گوگل آپکو سو فیصد درست خبریں دے رہا ہے مگر سندھ حکومت کی کسی وزیر اور زمہدار نے زحمت نہیں کیا۔
بارشوں میں کراچی کے وہ علاقے ڈوبے جو رہائشی آبادیوں میں سب سے بہترین علاقے ہے ہر لحاظ سے جسے کے کلفٹن،ڈیفنس، طارق روڈ وغیرہ۔ نہیں ڈوبا لیاری، گولیمار، بنارس جسے سستے علاقے نہیں ڈوبے اور مہنگا ترین علاقے ڈوب گئے۔ آخر اسکا کیا مقصد ہے۔
اسکے پیچھے تین مقاصد ہو سکتے ہے۔ ایک کراچی کے مہنگے ترین علاقے لوگ مجبور ہو کر سستے داموں میں اپنے گھر بیچ کر جاہیں تاکہ حکومت کے اپنے چاہنے والے خرید کر کاروبار کریں۔ دوسرا مقصد کراچی کی اچھی آبادیوں کو بدنامی دے کر بحریہ ٹاؤن کو کامیاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اور تیسرا مقصد وفاقی حکومت کو بلیک میل کرکے پیسے ہڑپنے کی سازشں ہوسکتی ہے۔
سندھ حکومت کراچی کی عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔وفاقی حکومت کو چاہیے کراچی کو ٹھیک اوور کریں۔ اور کراچی کی عوام کےتمام مساہل کو جلد ختم کریں۔