مشکے، تعلیم کے مسائل

نعمت اللہ شاہوانی

اگر آج ہم دنیا کو دیکھیں اور خود پر نظر دہرائیں تو دنیا کے سامنے ہماری مثال رینگنے والے کیڑوں جیسا ہے جو ایک دن بڑے جانوروں کی ضد میں آکے کچل جاتے ہیں ہماری زندگی کی مانند ایک چرواہے کی ہے جو صبح سویرے اٹھ کے گاوں کے بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لئے پہاڑوں کی طرف جانے لگتا ہے وہ اس ترقی یافتہ دنیا سے بے خبر بس کسی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ کر وطن کی خوبصورتی کا نظارہ کر رہا۔ہوتا ہے کبھی کھبار بھیڑ بکریوں پر نظر دوہراتے ہوئے کہیں بھیڑیے کی زد میں نہ آجائیں اُس کو یہ۔پتا نہیں کہ اُس کی دنیا سے الگ ایک اوردنیا بھی ہے جو دن بہ دن آسمان کی اونچائیوں کو چھو رہا ہے اگر ہم۔دوسری قوموں کی مثال کو چھوڑ کر صرف بلوچ قوم کی مثال لیں تو ہم۔خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آج کی دنیا کہاں اور ہم۔کہاں بلوچستان کے کئ ایسے علاقے ہیں جہاں کتابوں کو پکوڑے اور سموسے لپیٹنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ہمارے ہاں بلوچستان میں جب کوئی بچہ جنم لیتا ہے تو اُن کے والدین خوش ہوتے ہیں کہ ہاتھ بٹھانے کےلئیے لڑکا پیدا ہوا ہے وہ پہلے سے ہی بچےیا بچی کے مستقبل کا سوچ چکے ہوتے ہیں کہ اُسے کیا کرنا چاہیے بلکہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر آج ہم۔انکے ہاتھ میں ایک قلم اور ایک کتاب تھما دیں تو شاید ان کو کوئی دیکھ کے اسی راہ پر گامزن ہو اور انہی کی بدولت اور بہت سے بچوں کے ہاتھ میں قلم اور کتاب ہو جو آہستہ آہستہ بڑھتا جائے اور ساری قوم کو ساتھ لے کر دنیا کی ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ قدم بہ قدم چلے لیکن بد قسمتی سے جب وہ بچہ پانچ یا چھ مہینے کا ہوتا ہے تم ہم دیکھتے ہیں کہ ہاتھ میں قلم اور کتاب اُٹھانے کے بجائے ننگے پیر پٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس یا تو بکریوں کو چرارہا ہوتا ہے یا تو اپنے باغات کی طرف جا رہا ہے بد قسمتی سے جس عمر کے لحا ظ سے دنیا کے بچے پی ایچ ڈی ہولڈر ہوتے ہیں اُس وقت ہم کو پتا چلتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اور وزیر اعلی کا نام کا پتہ چلتا ہے لیکن یہ پتا نہیں کہ وہ کونسے کام سر انجام دیتے ہیں میں اگر اپنے گاوں مشکےضلع آواران کی بات کروں وہاں پہ کچھ ایسے اسکولز ہیں جہاں طلبہ کی جگہ اسکولز میں بھیڑ بکریاں باندھے ہوے ہیں اور اُس ایریا کے بچےٹائر (وہ جو موٹر سائیکل کے ٹائر ہوتے ہیں)چلاتے دکھائی دیتے ہیں یا گلی ڈنڈا کھیلنے میں مصروف ہیں مشکے کے تمام اسکولز کے کمروں کی حالت خستہ حال ہے سال کے چار موسموں میں ہر موسم میں اُن اسکولز کے طلبہ اور اساتذہ کرام مختلف دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں جب گرمی کا موسم آتا ہے تو گرمی کی شدت کی وجہ سے طلبہ اور اساتذہ کرام پر اثرات پڑھتے ہیں کیونکہ وہاں پہ نا کوئی بجلی کی سہولیات ہے اور نہ ہی سولر سسٹم کی کہ اسٹوڈنٹس اور اساتذہ آسانی سے اپنے پڑھائی جاری و ساری رکھیں اور اگر میں سردیوں کی وقت کی بات کروں کہ اسکول کے کمروں کی حالت ایسی ہے کہ تعمیر کے وقت کھڑکیوں کے لئیے چار چار فٹ کا جگہ چھوڑا جاتا ہے لیکن کھڑکیوں کا نام نشان نہیں اگر ہیں تو اُن کے ایک سائیڈ والا غائب ہے جہاں سے اتنی شدت سے ہوائیں آتی ہیں کہ جیسے طلبہ اور اساتذہ کرام k-2 کی کسی چوٹی پر بیٹھی ہوئی ہوں اور اگر جب بارش ہوتی ہے تو اس وقت کمرے کا آدھا حصہ پانی سے بھر جاتا ہے لیکن الحمداللٙہ میں نے خود اپنی مدد آپ کے تحت گورنمنٹ مڈل سکول تانجو کے طالبعلم اور اساتذہ کرام کو اپنی مدد آپ جدہ جہد کرتا ہوا دیکھا ہے جو لکڑیاں اکٹھا کرنے اور سردی کی شدت سے بچنے کے لئے بازار سے کارٹن اکھٹا کرتے دیکھا ہے صرف یہی ایک سکول ان مسائل سے دوچار نہیں بلکہ مشکے کے سارے اسکولوں کی حالت یہی ہے باقی سب سکولوں کو چھوڑ کے میں اگر گورنمنٹ ہائی سکول کی بات کروں تو وہاں کے طلبہ کی تعدا دتین سو سے لیکر چار سو تک ہے اور ہر سال بڑھتی جارہی ہے اور وہاں کے اساتذہ کرام کی تعداد 20 سے لیکر 25 یا 30 کے درمیان تک ہے اور اُن میں سے کچھ روزمرہ کی مصروفیات کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتے اور باقی جتنے حاضر ہوتے ہیں وہ سارا دن ایک کلاس سے نکل کر دوسری کلاس اور دوسری سے نکل کر تیسری میں اسی طرح اُنکادن گزرتا ہے اور کہی ایسے طلبا ہیں جو صبح سویرے 6سے 7 کلومیٹر کا سفر طے کرکے پڑھائی کے لئیے آتے ہیں اور جب وہ اسکول پہنچ جاتے تو وہ بری طرح سے تھک جاتے ہیں اور ان کی پڑھائی پر دھیان نہیں رہتا اب میرے ہاتھ تھک چکے ہیں صرف تعلیمی مسائل کے بارے میں لکھنے سے دوسرے مسائل کو چھوڑ کے وہ بھی ایک آبادی کے لحاظ سے چھوٹی سی تحصیل کے باقی تو پورے بلوچستان کا اللہ خیر اب کچھ ہی دنوں کی بات ہے کہ مشکے کے ایک نوجوان تعلیم دوست سلطان فرید شاہوانی اور اُسکے ساتھ شہریار قدیر شاہوانی جو مشکے کے لئے ایک لائبریری کے لئے کتابیں جمع کر رہے ہیں جن کو بلوچستان اکیڈمی کی طرف سے کچھ کتابیں ملی ہیں اور ضلع واشک کے ڈپٹی کمشنر شفقت انور صاحب نے پچاس ہزار نقد پیش کرنے کا اعلان کیا تھا جس سے لائبریری کے لئیے میز اور جوچیزیں درکار ہیں وہ لے سکیں مجھے امید ہے کہ بلوچستان بلکہ پوری پاکستان میں ایسے تعلیم دوست ہیں جو اس جدوجہد میں انکی مدد کریں گے اور میں شکرگزار ہوں فیروز صاحب کا جس نے اسکول کے ایک کمرے کو لائبریری میں۔تبدیل کرنے میں انکا ساتھ دیا میں بہت خوش ہوں کہ سلطان برمش/فرید جیسے نوجوان مشکے کے نوجوان اور بچوں کے ہاتھوں میں قلم۔اور کتاب تھمانے کے لئیے دن رات محنت کررہا ہے مجھے پورا یقیں اس کہ یہ خواب ضرور پورا ہوگا

اپنا تبصرہ بھیجیں