ظلم اور کتابی قوانین

تحریر:عقیل احمد
جب معاشرے میں کوئی برا عمل بدستور رونما ہونے لگ جاۓ تو اس کو معاشرہ ناسور کا نام دیتا ہے اور اسکو ختم کرنے کیلۓ یا تو موجود قانون پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ یا پھر قانون بنانا پڑتا ہے۔اور اس قانون پر فوری عمل بھی کرنا پڑتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں قانون بنانے والے ہی قانون کو بننے ہی نہیں دیتے۔ جب بھی موٹروے جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ تب تمام سیاسی پارٹیاں پوائنٹ سکورنگ میں مشغول ہو جاتی ہیں۔ اور جنسی زیادتی کرنے والوں کو سر عام پھانسی دینے کا قانون بنانے کی ڈینگیں بھی ماری جاتی ہیں۔ مگر ایسا کچھ ہو نہیں پاتا۔ جب کھبی بھی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو ایک اور ٹولہ بھی روتے ہوۓ سامنے آتا ہے۔ جس کو ہم سب انسانی حقوق کی تنظیم کے نام سے جانتے ہیں۔ جو یہ تو کہتے نظر آتے ہے۔ مجرم کو سزا دی جاۓ۔ مگر جب بات ہوتی ہے انکو سزاۓ موت دینے کی یا پھر سر عام پھانسی دینے کی تو پھر ایک نیا ڈرامہ شروع ہو جاتا ہے کہ جناب یہ تو انسانیت اور اسکے حقوق کے خلاف ہے۔ تو یہ لوگ ہوتے ہیں ایسے مجرموں کو بچانے والے نہ کہ انکو انصاف فراہم کرنے میں مدد کرنے والے جن کے ساتھ ایسا شرمناک واقعہ پیش آیا۔ ہم اگر ایران میں جنسی زیادتی کرنے والوں کے خلاف بناۓ گئے قانون کو دیکھے تو یا تو مجرم کو سرے عام پھانسی دی جاتی ہے یا پھر سنگسار کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح چین کے قانون کی طرف نظر دوڑائ جاۓ تو جنسی زیادتی کرنے والوں سے انکی مردانگی کی صلاحیت ہی چھین لی جاتی ہے۔ اور وہاں یہ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان قوانین کو سپورٹ کرتی ہیں۔ نہ کہ مجرموں کو بچایا کیسے جاۓ یہ ہربے ڈھونڈتی ہیں۔ نہایت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ملک میں نہ ہی کوئ قانون ہے اور نہ ہی بچوں اور بچیوں کی عزتیں محفوظ ہیں۔ جن کے محافظ ہی کہے کہ عورت کو اکیلے سفر ہی نہں کرنا چائیے تھا کیونکہ یہ فرانس نہیں تو کیا حفاظت کرے گے ہماری؟ نہ ہی ہم اسلامی جمہوریہ میں بستے ہیں نا تو اسکو مدینہ کی ریاست کہا جاسکتا ہے تحریر کے موضوع کو دیکھے تو سچ ہی لگتا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں مجرم لین دین کے بعد باعزت رہا کر دیا جاتا ہے اور جو مظلوم لوگ ہوتے ہیں یا حق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں تو انکو دھمکی دے کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔ ہزاروں جنسی زیادتی کے کیس موجود ہیں۔ ماسواۓ زینب کے کیس کے مجرم کے علاوہ آج تک کسکو سزا دی گئ ہے۔ ہمارے ہاں قانون صرف کتابوں اور کچھ اوراق تک ہی محدود ہو کر رہ چکا ہے۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بااثر لوگوں کے لئیے تو قانون ہے ہی نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں