شاہینہ شاہین کا قتل

شاہین بارانزئی
ابھی چند دن ہوئے ہیں یہ دلخراش واقعہ تربت میں پیش آیا۔ صحافی خاتون،سماجی کارکن، پی ٹی وی بولان کی اینکر شاہینہ شاہین کو قتل کردیاگیا۔ اس کے قتل سے جو نقصان ہوا ہے وہ یہ ہے بلوچستان ایک باصلاحیت خاتون سے محروم ہوگیا ہے، بلوچ قوم ایک ٹیلینٹڈ خاتون سے خالی ہوئی۔ ہماری سوسائٹی کا المیہ یہ ہے کہ کسی خاتون کے حسن، چال چلن (منفی اندازمیں) کے بارے میں بات کی جائے تو بڑے دھیان سے سنی جاتی ہے مگر خاتون کے ٹیلنٹ، اس کے کردار (مثبت) کی بات جائے توکوئی دلچسپی نہیں لی جاتی ہے۔
شاہینہ شاہین کون تھی؟ کس کی بیٹی تھی؟ کیسی تھی؟ کیا کرتی تھی؟ ان سب سوالات کے جوابات یہی ہیں کہ شاہینہ شاہین ایک بلوچ تھی، وہ ایک بلوچ کی بیٹی تھی، وہ ایک باصلاحیت لڑکی تھی، بلوچ قوم اور بلوچستان کو ایک پہچان دے رہی تھی۔
دوسرے پیرائے میں شاہینہ شاہین کا مختصر تعارف یہ تھا کہ وہ تربت کا علاقہ شاہی تمپ کے رہائشی رفیق بلوچ کی بیٹی تھی، چار بہنوں کی پانچویں بہن تھی۔ شاہینہ شاہین کا کوئی بھائی نہ تھا، والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ اپنی مدد آپ کے تحت اور والدہ اور بہنوں کی مدد سے آگے بڑھ رہی تھی۔
تیسرے پیرائے میں شاہینہ شاہین کا تعارف یوں کیا جاتا ہے کہ وہ جامعہ بلوچستان سے فائن آرٹس میں ماسٹرز کی ڈگری لی تھی، گولڈمیڈلسٹ تھی۔بلوچی میں ایم اے کر رکھا تھا۔ پی ٹی وی بولان کے بلوچی مارننگ شو کی اینکر تھی، ماہ نامہ ”دزگہار“ تربت کی ایڈیٹر تھی، سماجی کارکن تھی اوروہ ایک ایسی باہمت لڑکی تھی ٹی وی کے چیکس پر اپنی تعلیمی اخراجات پوری کرتی تھی اور سماجی خدمت بھی کرتی تھی۔
چوتھے پیرائے میں شاہینہ شاہین کا تعارف اس طرح ہے کہ وہ اتنی ذہین لڑکی تھی بلوچی میں ماسٹرز فرسٹ پوزیشن میں کیا اور فائن آرٹس میں گولڈمیڈلسٹ تھی،نمایاں آرٹس بناکر آگے بڑھنے کی کوشش کرتی تھی۔
تیسرے پیرائے میں شاہینہ شاہین کا تعارف یوں ہے کہ وہ ہماری تذلیل انسانیت ساسوئٹی کی ایک خوبصورت لڑکی تھی بدمعاشی سوسائٹی سے لڑتے ہوئے پیچھے نہیں،آگے دیکھتی تھی بلوچ قوم اور بلوچستان کو ایک شناخت دینے میں مصروف تھی۔ شاہینہ کی ایک مرد سے شادی ہوئی، مگر مرد عورت کا ٹیلنٹ نہیں حسن دیکھتا ہے۔سوچ کے ٹکراؤ میں بغاوت پیدا ہوئی۔ اس مرد سے طلاق ملی۔ دوسرے مرد سے شادی کی۔ مرد کا مزاج وہی ہے۔ عورت کا ٹیلنٹ بھاڑ میں جائے وہ حسن کا گرویدہ ہوتا ہے۔ شاہینہ اپنا حسن نہیں، اپنے ٹیلنٖٹ کو نکھارنا چاہتی تھی۔ وہ گھر سے نکل کر عملی میدان میں ایک رول ماڈل کی حیثیت سے بلوچ خواتین، بلوچ قوم اور بلوچ وطن بلوچستان کی نمائندگی کرنا چاہتی تھی۔ جبکہ ایک نالائق مرد کبھی یہ نہیں چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اتنی لائق بنے بجائے مرد کے عورت اپنے شوہر کا پہچان بنے۔ دونوں مردوں سے سٹیٹس کازبردست ٹکراؤ پیدا ہوا۔ ایک مرد نے طلاق دی دوسرے مرد نے قتل کر ڈالا(یہ شاہینہ شاہین کے ماموں کا موقف ہے، واللہ عالم)۔
شاہینہ شاہین جب کوئٹہ آئی جامعہ بلوچستان میں داخلہ لیا، پی ٹی وی بولان کے بلوچی مارننگ شو کی میزبانی کے فرائض سرانجام دینے لگی وہ پہلے ہی پروگرام سے ایسی خوداعتمادی کے ساتھ پروگرام کیا جیسا مدتوں سے پروگرام کرتی رہی ہے۔ حالانکہ کئی لڑکیاں بلکہ لڑکے بھی کیمرے کے سامنے کئی ماہ تک ریہرسل کے بعد بھی مشکل سے اس قابل بن جاتے ہیں جو کیمرے کو فیس کرتے ہوئے پروگرام کو آگے بڑھائیں۔
2012ء میں راقم نے روزنامہ ”قدرت“ کوئٹہ کیلئے شاہینہ شاہین کا ایک انٹرویو کیاتھا جس میں انہوں نے اپنے مستقبل کے حوالے سے جو پروگرام (پلاننگ) بتائے تھے اس مختصر عرصے میں انہیں پورے کرنے میں میرے خیال میں نوے فیصد کامیابی حاصل کی تھی۔ جس رفتار سے وہ اپنے اہداف کی طرف گامزن تھی اگر زندگی اسے مہلت دیتی تو وہ آئندہ تھوڑے عرصے میں اپنے تمام اہداف سوفیصد پورے کرتی تھی۔
بلوچستان میں خواتین پر حملے ہوتے رہے ہیں اور ہورہے ہیں مگر دو حملے بہت بڑے ہوئے ہیں۔ ایک جامعہ بلوچستان کوئٹہ والا اسکنڈل ہے جو سابق وی سی جاوید اقبال کی نگرانی میں ہوا۔ جس میں بلوچستان کی تمام بچیوں کو اپنی عزت کے حوالے سے خوفزدہ کرکے تعلیم سے دور رہنے کی سازش کی گئی اور دوسرا حملہ یہی ہے جو حال ہیں میں تربت میں شاہینہ شاہینہ کو قتل کرکے خواتین کو ایک سازش کے تحت آگے بڑھنے سے خوف زدہ کیا کیاگیا۔شاہینہ شاہین کے ماموں نے اس کے شوہر کو قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ لیکن اگر یہ بات سچ ہے کہ اس کے شوہر نے اس کو قتل میں ملوث ہے بھی یقینا وہ اس بڑی سازش کا حصہ ہے۔ جس میں بلوچ خواتین کو آگے بڑھنے سے روکا جارہا ہے۔
یہ دونوں بہت بڑے حملے ہیں جامعہ بلوچستان والا خواتین کو تعلیم سے دور رکھنے کیلے عزت پر حملہ تھا۔ اور یہ حملہ خواتین کو آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے ان کی جان پر حملہ تھا۔ شاہینہ شاہین کا قتل صرف ایک خاتون کا قتل نہیں بلکہ پوری خواتین کا قاتل ہے۔خواتین کی صلاحیتوں کا قتل ہے۔ ہر اس خاتون پر حملہ ہے جو اپنی محنت سے، اپنی ہمت سے، اپنی صلاحیتوں سے، اپنی ذہانت سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔ہرا اس خاتون پر حملہ ہے جو اپنی تعلیمی قابلیت سے ڈبل ماسٹرز کرتے ہوئے مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھتی ہے۔ اور ہر اس عورت کے قدموں پر حملہ ہے جو صحافت میں، جوسماج میں جو تعلیم کے شعبے میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔