تعلیم کا مقصد
تحریر۔ ابوبکردانش بلوچ
علم کی فطرت میں خیر اور بھلائی ہے ۔ علم ہر مشکل وقت میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے ۔ علم ہرزمانے میں پیش آنے والے مشکلات سے نمٹنے کیلئے معاون بنتا ہے ۔ جب بھی اور جس عہد میں بھی کوئی چیلنجز آتاہے تو اس کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور جرأت عطا کرتا ہے ۔ علم بنیادی طور پر صلاحیت اور قابلیت پیدا کرتاہے ۔ علم سے آراستہ ہونے کے بعد انسانی ذہن و دماغ میں وسعت اور کشادگی پیدا ہوتی ہے ۔ اسی کے بعد ریاست ،سماج اور معاشرہ کی ترقی ممکن ہوپاتی ہے ۔ علم نئے امکانات کیلئے دروازے کھولتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سبھی مذاہب میں حصول علم کو بے پناہ اہمیت حاصل ہے ۔ اسلام نے حصول علم کو سب سے زیادہ اپنی ترجیحات میں شامل کیاہے ۔ قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہی اقراءباسم ربک ۔۔۔۔۔ کرکے بتایا گیا کہ علم سب سے اہم ہے ۔ قرآن کریم کی پہلی آیت اور پہلی سورت سورۂ علق ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو علم حاصل کرنے کا حکم دیاہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بذات خود علم کا مقصد کیاہے ؟۔ تعلیم سے مطلوب ومقصود کیا ہے؟ ۔ علم سے انسان میں کونسی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں؟ ۔
تعلیم کے مقاصد کی طویل فہرست ہے لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ علم کے بعد انسان میں شعور پیدا ہوتا ہے ۔ سمجھ بوجھ کی صلاحیت اس میں پیدا ہوتی ہے ۔ علم سے اولین مطلو ب یہ ہے کہ انسان اپنے خالق کو پہچانیں ۔ اپنی تخلیق کے مقصد کو جانیں ۔ اپنے پروردگار کو جانیں ۔ اس کی پیدائش کا مقصد کیاہے ۔ کیوں کہ خالق کائنات نے انسان کو پیدا کیا ہے ۔ اس بارے میں بھی غور وفکر کرے کہ اس دنیا کا خالق کون ہے ۔ زمین و آسمان کا بنانے والا کون ہے ۔ کیوں کائنات کی ہر شی انسانیت کو فائدہ پہونچانے کیلئے بنائی گئی ہے ۔ انسان کی حیثیت کیاہے کیوں تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ ترجیح اور اہمیت انسانوں کو دی گئی ہے ۔ علم آنے کے بعد ایک انسان ان چیزوں کے بارے میں سوچتاہے ، غور و فکر کرتاہے اور یہی علم کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے؟ ۔
علم معتدل اور صالح معاشر ہ کی تشکیل میں بھی نمایاں کردار ادا کرتاہے ۔ سما ج اور معاشرہ لوگوں کے وجود سے تشکیل پاتا ہے ۔ معاشرہ اگر نیک، اعتدال پسند اور صالح ہوتاہے تو انسانیت کی ترقی ہوتی ہے ، وہ معاشرہ قابل فخر بنتا ہے اور معاشرہ میں کوئی کمی خامی ، کوتاہی پائی جاتی ہے تو وہ پھر معاشرہ دنیا کیلئے ناسور بن جاتا ہے ۔ سماج میں برائیوں کو وجود ملتا ہے ۔ اچھائیوں کے بجائے صرف برائیوں پر توجہ رہتی ہے ۔ اس سے تخلیق انسانیت کا مقصد بھی فوت ہوتا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتاہے ، جہالت کی وجہ سے گمراہی پیدا ہوتی ہے اور پھر انسان اپنی تخلیق کے اصل مقصد کو فراموش کرکے دنیا کی چند دنوں کی عارضی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے اور پھر اسی کو بہتر بنانے کیلئے آپس میں قتل و غارت گری شروع کر دیتا ہے ۔ ایک دوسرے کے خون کا پیا سا بن جاتا ہے کوئی دولت کے حصول میں تمام حدوں کو پار کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ کوئی حکومت اور طاقت کے حصول کیلئے حد سے تجاوز کرتا ہے ، کوئی خاندانی عصبیت کا شکار ہو جاتا ہے اور خود کو سب سے قابل سمجھ لیتا ہے اور پھر یہیں سے معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے ۔ ایک دوسرے کے خلاف حسد ، جلن کی شروعات ہوتی ہے اور معاملہ میدان جنگ میں تبدیل ہوجاتاہے ۔ ایک خاندان دوسرے خاندان کے خون کا پیاسا بن جاتا ہے ۔ بھائی بھائی کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتاہے ۔ امن وسکون تباہ وبرباد ہوجاتا ہے اور یہ سب علم کے فقدان کا سبب ہوتا ہے ۔ علم نہ ہونے کی وجہ انسان معاشرہ کو برائیوں کے دلدل میں پھنسا دیتا ہے ۔
علم کے بنیادی مقاصد میں انسانی آزادی بھی شامل ہے ۔ جب انسان کے پاس علم کی دولت ہوتی ہے تو وہ اپنی آزادی کو ضرروی اور لازم قرار دیتا ہے ۔ اپنی مرضی سے سوچنے ،سمجھنے ، اظہار خیال کرنے اور زندگی گزار کو اپنا بنیادی حق سمجھتاہے لیکن جب معاشرہ علم سے محروم ہوتا ہے ، معاشرہ کے افراد علم سے لاتعلق ہوتے تو پھر اس وقت ایک طبقہ انہیں اپنا غلام بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ ان کے ساتھ غیر انسانی رویہ اپناتا ہے ۔ ان کی سوچ و فکر کو ختم کرے اپنا احکامات کے تابع بنالیتا ہے ۔ انسان کی اپنی سوچ ، اپنی فکر ناپید ہوجاتی ہے ۔ اس کی حیثیت محض ایک جانور نما ایک غلام کی ہوجاتی ہے ، ایسی زندگی کا صرف ایک مقصد بنادیا جاتا ہے اور وہ ہے اپنے آقا کی آنکھ بند کرکے اطاعت ، ان کے ہر حکم کو بجا لانا، ان کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ۔
غلامی کی زنجیر میں جکڑ نے کی بنیادی وجہ علم سے محرومی ہوتی ہے جب انسان تعلیم یافتہ ہوتاہے تو وہ اپنے بارے میں ، اپنے مستقبل کے بارے میں ۔ اِر گرد کے حالات کے بارے میں سوچتاہے ۔ آزادانہ فیصلہ لیتا ہے ۔ اپنی زندگی پر سب سے پہلے اپنا حق سمجھتا ہے اور کسی بھی انسان میں آزادی کی یہ صفت علم کے بعد ہی پیدا ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ دنیا بھر میں غلاموں کو علم حاصل کرنے سے روکا گیا۔ انہیں علم سے محروم کیا گیا اور جس کسی نے بھی علم حاصل کرلیا اس نے اپنی غلامی کے خلاف آواز بلند کی ۔ انسانی پامالی کے خلاف تحریک چلائی اور اپنے علم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشرہ میں آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی ۔
علم سے آراستہ ہونے کے بعد انسان میں ایک ایسا شعور پیدا ہوتا ہے جس سے وہ معاشرہ کو خو شحال ، کامیاب اور قابل تقلید بنانے کی منصوبہ سازی کرتاہے ۔معاشرہ کے صالح اقدار کے خلاف پائی جانے والی سرگرمیوں کے خلاف بر سرپیکار ہوجاتا ہے۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اور مظلوموں کا ساتھ دیتا ہے ۔ معاشرہ میں عموما یہ مزاج پایا جاتا ہے کہ انسان دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے ۔ جن کے پاس دولت ہوتی ہے وہ دوسروں کو کمتر اور حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور خود کو سب سے مہذب خیال کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ خاندانی حسب و نسب کی وجہ سے غرور کرتے ہیں ۔ ان کا یہ خیال ہوتاہے کہ وہی سب سے افضل اور سپریمو ہیں ۔ ان کا خاندان اعلی اور تہذیب یافتہ ہے ۔ ان کے علاوہ دوسروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، دوسرے لوگ کمتر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ انسانی احترام میں وہ دیگر انسانوں سے ممتاز اور فائق ہیں اور پھر وہ دوسروں پر ظلم کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ انہیں اپنے ظلم و ستم کا تختہ مشق بنالیتے ہیں ۔ انہیں کمزور ، بے بس اور لاچار سمجھ کر ہر طرح کا ظلم کرنا اپنا خاندانی امتیاز اور فخر سمجھتے ہیں لیکن اسی معاشرہ میں جو لوگ علم کی دولت سے آراستہ ہوتے ہیں وہ اس ظلم کے خلا ف آواز اٹھاتے ہیں ۔ مظلوموں کا ساتھ دیتے ہیں اور ظالموں کو ظلم کرنے سے روکتے ہیں اور یہ خوبی علم کے بعد پیدا ہوتی ہے اور یہ ایک تعلیم یافتہ انسان کی پہچان سمجھی جاتی ہے ۔
حصول علم کے بعد انسانی قلب میں نمایاں تبدیلی آتی ہے ۔ مادیت پر انحصار کرنے کے بجائے انسانیت کے بارے میں سوچنے کا مزاج پیدا ہوتا ہے ۔ علم انسان میں حفظ خودی کی خوبیاں پیدا کر تا ہے۔ علم انسان کو توحید، عشق خداوندی، بلند ہمتی، سخت کوشی، پاک دامنی، فقر، روا داری، اعتدال، کمزوروں کی مدد ، ظالموں کے خلا ف جنگ اور درویشی قناعت جیسی صفات سے آراستہ کرکے ایک مثالی انسان بناتاہے ۔ انسانی معاشرہ خوشگوار بنتا ہے اور یوں علم کا ایک واضح مقصد ہمارے سامنے آتا ہے ، یہیں اس بات کا بھی علم ہوجاتا ہے کہ آخر اللہ تعالی نے کیوں حصول علم پر اتنا زیادہ زور دیا ہے؟ ، کیوں ہرمذہب میں علم کے حصول کی اہمیت بتائی گئی ہے؟ اور کیوں علم کی فضیلت عظمت بیان کی گئی ہے؟ ۔ کیوں علم انسانی تعظیم کا سبب قرار دیا گیا ہے ؟۔
خلاصہ کلام یہ کہ تعلیم کا مقصد انسان بگاڑ کی اصلاح کیلئے تیار کرنا بھی ہے اور اسے ایسے سانچے میں ڈھالنا بھی کہ وہ خود کو مفید شہری بنا کر صالح و معتدل معاشرے کووجود میں لانے میں مددگار بنے ۔ ظلم کے خلاف بر سرپیکار رہے ۔ انسانوں کو غلامی کی زنجیر سے آزادی دلائے ۔ ان سب کے ساتھ تعلیم کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ ایک انسان اپنے خالق کو جانے ، اپنی تخلیق کے مقصد کوسمجھے اس میں یہ شعور پیدا ہوسکے اور وہ خودی کی تقویت اور استحکام جیسی صفات سے آراستہ ہوجائے ۔