انصاف کے لیئے پکار : (A Cry For Justice )
ڈاکٹر دین محمد بزدار
بلوچستان کا عملی ادراک :(Empiricle Insight From Balochistan. )
یہ کتاب قیصر بنگالی نے لکھی اور آکسفورڈ یو نیورسٹی پریس نے 2018 میںشائع کی۔منصف نے کتاب ان شخصیات کے نام منسوب کی جنہوں نے غریب لوگوں کے حقوق کے لیئے اپنی زندگیا ںوقف کی تھیں۔کتاب کا پیش لفظ آئی ئے رحمان نے لکھاجو ایک عالم اور انسانی حقوق کی خاطر لڑ نے والے جانی پہچانی شخصیت ہیں۔بنگالی ایک معروف ماہر اقتصادیات ہیں ۔وہ 2013 سے2016 تک وزیر اعلی بلو چستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے اقتصادی مشیر رہے۔مصنف کے مطابق یہ کتاب زیادہ تر انکی پریذنٹیشنز (presentations )اور خلاصوں (briefs)پر مشتمل ہے جب وہ وزیر اعلی بلوچستان کے مشیر تھے۔آئی ئے رحمان کے مطابق بنگالی نے بلو چستان پر یہ خلا صہ عملی شواہد کی بنیاد پر ترتیب دی جسے جھٹلانا ممکن نہیںاوران کے مطابق بلو چستان کے نما ئندوں نے ما ضی میں معاشی محرو میوں کی بجائے سیاسی حقوق کی خاطر زیادہ آواز بلند کی۔منصف نے اپنی کتاب میں نا انصا فیوں کے پانچ اشارے(indicators )منتخب کیئے،( 1)سوئی گیس کی شکایات(The great gas greviances ) (2 ) ترقی میں شدید کمی (Chronic development deficits ) (3 )سماجی تحفظ میں کمی (Deficits in social protection ) (4 ) سروسز میں نابرا بری (Imbalac in services ) ۔(5 ) نما ئندگی میں نا برابری (Representational imbalance )۔بلو چستان 1955 سے1969 تک ملک میں واحد گیس مہیا کرنے والا صوبہ تھا۔بلو چستان کو اپنے ہی گیس سے تین دہا ئیوں ،1982 تک محروم رکھا گیا۔بلو چستان میں اب بھی گیس کا استعمال 2% ہے۔اوچھ پا ور پلانٹ کے بعد یہ بڑھ کر 7% ہو گیا، لیکن اوچھ پا ور پلانٹ سے بلوچستان کو کوئی فا ئدہ نہیں مل رہا۔گیس نکا لنے کی رفتار سوئی ڈیرہ بگٹی سے مسلسل بڑھ رہی ہے ۔1955 میں 1535MMCF (ملین میٹرک کیوبک فیٹ)سے بڑھکر 2001 میں 387368MMCF ہو گئی۔بلو چستان نیشنل گرڈمیں 2280MW بجلی شامل کر تی ہے اور اسے صرف 700-800MW بجلی ملتی ہے۔مصنف نے اعدادو شمار کی مدد سے یہ انکشاف کیا کہ 1955 سے2014 تک دوسرے صوبوں کی صنعتوں اور کاروبار کو چلا نے گیس کی قیمت میںجو امداد (Subsidy ) دی گئی اسکا زیادہ بوجھ بلوچستان پر پڑا۔یہ بوجھ 1955-1964 تک 90% ،1965-1982 تک 80-90% ،1983-1995 تک 50-80% بلو چستان نے برداشت کی۔اس سبسڈی کی وجہ سے بلو چستان حصے کے 7.69 ٹریلین (71 کھرب)روپے دوسرے صوبوں کی ترقی پر خرچ ہوئے ۔یاد رہے ان صوبوں میں کافی عرصے تک اینٹیں بھی سوئی گیس پر پکائی جاتی تھیں ۔اگر یہ رقم بلو چستان کی ترقی پر خرچ ہوتی تویقینا آج بلو چستان بھی دوسرے صوبوں کے برابر ہوتا۔
جہاں تک ترقی میں شدید کمی کاسوال ہے مصنف کہتا ہے ہم ہمیشہ سے سنتے آ رہے ہیں بلو چستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اس کے با وجودپا کستان کا پسماندہ صوبہ ہے۔یہ متضاد بیان 70 سال گزرنے کے باوجود آج بھی صحیح ہے۔بلو چستان نہ صرف دوسرے صوبوں سے پیچھے ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید نیچے جارہا ہے۔گزشتہ عر صے میں بلوچستان کا گراس ریجنل پرو ڈکٹ (Gross Reagnal Product ) 2.8% سے نیچے رہاجو دوسر صوبوں کی جی۔آر۔پی۔ملا کر اسکا 60% بنتا ہے۔کتاب میں گزشتہ چار دہا ئیوں ، 1980 سے صوبے میں سماجی اور معاشی شعبوں میں جمود کو ظاہر کیا گیا ۔چار جا ئزے (Studies )جو پا کستان کے اضلاع کی ترقی اور پسماندگی(غربت) کوتسلسل سے ظاہر کرتے ہیں میں بلو چستان کے اضلاع ہر جا ئزے میں سب سے نیچے تھے۔1982 کے جا ئزے میں کل 10 میں سے 9 اضلاع ،1990 میں 20 میں سے14 , 1996 میں 30 میں سے 23 ا اور 2001 کے جائزے میں 26 میں سے24 پسماندہ ترین اضلاع کا تعلق بلو چستان سے تھا۔2009 کے ایک اور جا ئزے میں بلو چستان میں سب سے زیادہ غربت 52% (شہری29% اور دہی 86% ) تھی۔2012 کے ایک جا ئزے میں بلو چستان میں 75% دہی گھرانے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے اور شہری کھرانوں کی غربت 29% تھی جو ملک میں سب سے زیادہ تھی۔7 تھویں این ۔ایف۔سی۔ ایوارڈاور 18 رھویں ترمیم کی مالی خود مختاری تا ریخی لحاظ سے صو بے میں معاشی بنیاد (Economic base ) نہ ہونے کے سبب بے سود رہے(Proved to be an empty shell )۔سوئی گیس نے بلو چستان کے علاوہ دوسرے صوبوں میں معاشی بنیاد کی تعمیر کی۔ بلو چستان میں معاشی بنیاد کی ترقی کے لیے تین شعبوں میں ترقی کی ضرورت ہے۔معدنی صنعت، روڈز اور سوئی گیس ہر کہیں سبسڈی کے ساتھ مہیا کر نا۔فیڈرل پبلک سیکٹر دیویلپمنٹ پرو گرام (Public Sector Development Programmee ) جو لوگوں کے گھر بنا کر دینے کے لیئے ہے میں سے بلو چستان کے حصے کی رقم 1990 سے 2016 تک100% وفاقی سیکیورٹی ایجنسیزکے گھر اور دفاتر بنا نے پر خرچ ہو ئی ہے۔اس سرمایہ کاری کا مقصد وفاقی حکو مت کی تزویراتی عملداری (Strategic Writ )کو مضبوط کرنا ہے تاکہ گوادر میں ہو نے والی بیرونی سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کی جا سکے۔سیندک کاپراینڈ گولڈپرو جیکٹ پر ایک چینی کمپنی 2002 سے کام کر رہی ہے ۔ پروجیکٹ کا کل تخمینہ 412 ملین ٹن ہے۔ سالانہ 1.5 ٹن سونا ،2.8 ٹن چاندی اور 158000 ٹن تانبا نکالا جا رہا ہے۔اس میں بلو چستان کا حصہ صرف 2% ہے۔گوادر پورٹ کے ریوی نیو(Revenue )کا فیصلہ چین سے طے پایا اس میں بلو چستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
بلو چستان جو ملک کا سب سے غریب صوبہ ہے میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شہروں اورنزدیکی علاقوں تک محدودہے۔دور دراز علاقوں کے لوگوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا اس لیے اس پروگرام میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے صوبوں کے مقابلہ میں بہرا مند ہو نے والے لوگ کم ہیں۔
ملازمتوں میں نابرابری کی وجہ مصنف نے ستمبر 1993میں نگراں سیٹ اپ (Caretaker set up )کے ایک فیصلے کو ٹھہرایا۔جس میںشرکت کرنے والے وزیراعظم اور وزرائے اعلی غیر منتخب لوگ تھے اور انکاانتخاب وفاقی نے کیا تھا۔اس میٹنگ میں کو ئی صوبائی نما ئندہ شریک نہ تھا یہاں تک کہ صوبوں کا کو ئی سول سروس آفیسر بھی شامل نہ تھااور شر کت کر نے والے افسر شاہی کا تعلق بھی وفاق سے تھا۔اس میٹنگ میں وفاق اور صوبوں کے ما بین آل پا کستان یونا ئیٹڈ گریڈ (APUG )ملاز مین کے حصوں (Shares ) کا فیصلہ کیا گیا۔فیصلہ ہوا کہ صوبائی پوسٹوں پر وفاق کا حصہ ہر صوبے سے25% ہوگا اور وفاقی پوسٹوں پر صوبوں کا حصہ آبادی کی بنیاد پر ہوگا۔اس طرح ان آ فیسرز کا تناسب جو فیڈرل پوسٹوں کے لیے منتخب ہونگے پنجاب سے 57% اور بلوچستان سے5% ہے ، اگر سب سے زیادہ اور سب سے کم آبادی والے صوبوں کو لیا جا ئے۔میٹنگ میں صوبائی پوسٹوں پر صوبائی اور وفاق کے فیصد کا فیصلہ اس طرح ہوا:
گریڈ:17،18،19،20،21،22
فیڈرل فیصد:،25،40،50،60،65،100
صوبائی فیصد:75،60،50،40،35،0
ہم دیکھتے ہیں جوں جوں گریڈبڑھتا ہے صوبائی حصہ کم ہوتا جا رہا ہے اور گریڈ 22 میں صو بائی حصہ صفر ہے ۔اسی فار مولے کے تحت وفاق کا حصہ بلو چستان کی پو سٹوں پر اس طرح بنتا ہے۔
گریڈ :17،18،19،20،21، 22
کل پوسٹ:80،118،84،42 8،1
وفاق کا حصہ:20،47،42،25، 5،1
بلوچستان کا حصہ:60،71،42،17،3،0
اس فار مولے نے ایک کھڑکی کھول رکھی ہے تاکہ وفاق کے آ فیسرز کی صوبائی پوسٹوں پر تعناتی کی جا سکے۔بلو چستان میں زیادہ تروفاقی آ فیسرز کی پوسٹنگ پنجاب کے آ فیسروں سے کی جاتی ہے۔اکثر اوقات وفاق سے کو ئی آ فیسر بلو چستان آ نے کو تیار نہیں ہوتااس لیئے وفاقی آ فیسرز کو حکو مت بلو چستان نے درج ذیل مراعات دیں تاکہ وہ صوبے کام کریں
1) ) پو سٹنگ کی مدت صرف 18 ماہ ہو گی۔(2 ) پو سٹنگ ایک گریڈ اوپر کی پوسٹ پر ہوگی اور اسی گریڈ کی تنخواہ اور دوسرے تمام مراعات اسے ملیں گے ۔(3 ) بلو چستان اسپیشل الاونس ایک ماہ کی بنیادی تنخواہ کے برابر دی جائے گی۔(4 ) آ فیسرز اور ا نکی فیملیز کو کوئٹہ سے ملک کے کسی بھی ایر پورٹ تک سال میں چار بار فری ایر سفر کی سہولت حا سل ہوگی۔
جہاں تک اسمبلیوں میں نما ئندگی کی بات ہے اگر چہ سینٹ میں تمام صوبوں کی نما ئندگی برابر ہے لیکن فٹنس(Finance ) بلوں پر سینٹ کا کوئی اختیار نہیں۔قومی اسمبلی کی سیٹس آبادی کی بنیاد پر ہیں۔بلو چستان ملک کے رقبے کا 44% اور آبادی 5% ہے۔بلو چستان میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ پنجاب سے اوسطاً 18 گنا بڑا ہے۔قومی اسمبلی سیٹوں کی صرف آبادی کی بنیاد پر تقسیم بلو چستان کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔انصاف کا تقاضہ ہے کہ بلو چستان کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹیں دگنی کی جا ئیں۔ ختم