میر حاصل خان کی سیاسی زندگی پر ایک نظر

رزاق نادر

نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو جو گزشتہ تین چار سالوں سے سرطان کے موذی مرض میں مبتلا تھے اور کراچی کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں زیر علاج تھے پچھلے دنوں بہ رضائے الٰہی انتقال کر گئے ان کی میت کو ان کے آبائی گائوں لے جایا گیا اور وہاں ان کے آبائی قبرستان میں میر غوث بخش بزنجو کے پہلو میں دفنایا گیا ان کے جوانمرگ پر ہزاروں سوگوار سیاسی کارکنوں کی آنکھیں اشکبار تھیں ان کے قریبی عزیزوں اور چاہنے والوں نے ان کو آہوں سسکیوں کے ساتھ گلزمین کے حوالے کیا اور اس طرح رخصت ہو گئے بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کرنے والے لوگ ایک مربی اور دوست سیاستدان سے محروم ہو گئے ۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او ) غالباً 1967ء میں اپنی تشکیل کے فوراً بعد انتشار اور شکست و ریخت کا شکار ہو کر دو دھڑوں پرو سردار اور اینٹی سردار میں تقسیم ہو گئی تمام بلوچ طالب علموں کی طرح میر حاصل خان نے بھی اپنی سیاست کا آغاز بی ایس او (پروسردار گروپ ) سے شروع کیا شاید اس لئے کہ پرو سردار گروپ کے بانی لیڈروں میں میر بیزن تھے اور پھر بی ایس او کے ہر لیڈر اور سیاسی کارکن کی طرح وہ قوم پرست ‘ کمیونسٹ ‘ کامریڈ اور پرولتاریہ کے کٹر حامی اور خیر خواہ بن گئے اس لئے کہ یہ زمانہ امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کا زمانہ تھا اس طرح ساری دنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی اس خطے میں چونکہ ہوا کا رخ کمیونسٹ اور ترقی پسندی کی جانب زیادہ تھا اس لئے بی ایس او کے ہر کارکن اور لیڈر کی طرح میر حاصل خان بھی رواروی میں ترقی پسند اور قوم پرست بن گئے اور شاید اس لئے بھی کہ ان کے والد محترم ترقی پسند جماعت نیپ کے بڑے اور سرکردہ لیڈروں میں سے تھے اور اس کے علاوہ ان کے دیگر عزیز و اقارب اور رشتہ دار سب نیشنلزم اور بائیں بازو کی سیاست کے حامی تھے اس لئے وہ بھی بائیں بازو اور نیشنلزم کی سیاست کرنے لگے دیکھا جائے تو دوسروں کی طرح یہ عقیدت اور اندھی تقلید تھی کوئی شعوری اور دانستہ فیصلہ نہ تھا جسے بعد میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور حالات نے سچ ثابت کر دیا کہ متوسط طبقے کے دیگر نوجوان رہنمائوں جیسے ڈاکٹر مالک اور مولا بخش دشتی وغیرہ کی طرح میر حاصل خان نے بھی رسماً اور وقت گزاری کے لئے قوم پرستی اور بائیں بازو کی سیاست اپنائی تھی جب وقت کے ساتھ حالات بدل گئے تو انہوں نے بھی اپنا موقف یکسر بدل دیا اور یوٹرن لے لیا اور یہاں تک گئے کہ پارٹی کے نام کے ساتھ بلوچ کا لفظ تک نکال دیا اور اس طرح نہ تین میں رہے اور نہ تیرہ میں حالانکہ تمام تر کوششوں کے باوجود طاقت کے لحاظ ان کی پارٹی قومی دھارے کی پارٹی نہ بن سکی جبکہ اپنے اقتدار اور وزارت کے دوران ان کی پارٹی نے کوئی خاص کارنامہ سر انجام نہیں دیا جیسے دیا رکھا جا سکے بلکہ ان کے رفقاء نے اپنا وقت زبانی جمع خرچ میں گزار دیا جو انتہائی قابل افسوس بات ہے کیونکہ غریب عوام نے ان سے اور ان کے ساتھیوں سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں اور یہ سانحہ ان کی سیاست کیلئے کوئی نیک شگون نہیں ہے ۔
سوویت یونین کی شکست و ریخت اور فوکویاما کی کتاب ’’دی انڈ آف ہسٹری ‘‘ کے آنے کے بعد میر حاصل خان اور ان کے رفقاء یوٹرن لیتے اور موقف بدلتے تب تو کچھ بات تھی لیکن اس سے قبل اپنے سابقہ بیانیے کے بدلنے کا کوئی وجہ جواز بظاہر ہمیں نظر نہیں آتا جو لوگ عمر بھر جام صاحب (مرحوم ) اور مسلم لیگ کو کرپٹ کہتے رہے وہ اچانک کرپٹ سیاست کا حصہ کیوں بن گئے یہ ابھی تک ایک سربستہ راز ہے البتہ میر حاصل خان کے بارے میں انور ساجدی نے اپنے حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ 1988ء کے انتخابات میں میر صاحب قومی اسمبلی کے دونوں سیٹوں سے ہار گئے جس کی وجہ سے میر حاصل خان دلبرداشتہ ہو گئے اور بلوچستان میں مروجہ سیاست کے برعکس نیا اور الگ سیاسی راستہ اختیار کیا جو ان کے سابقہ بیانیہ اور دعوئوں کے برعکس تھا حالانکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سیاست اور انتخابات میں ہارجیت ہوتی رہتی ہے یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے جس سے میر حاصل خان کے قد کاٹ کا سیاستدان دلبراداشتہ اور مایوس ہو جائے اور اپنی شکست تسلیم کرے اور یہی موقف ہی بول دیتے ہارجیت تو طاقت کے کھیل کا حصہ ہے اس میں دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ان حقائق کو صبروتحمل سے برداشت کرنا چاہئے نہ کہ ہارنے والوں سے سنگتی اور دوستی کرنی چاہئے تھی میری نظر میں ان کا یہ فیصلہ غیر دانشمندانہ اور غیر سیاسی تھا جو سیاسی وژن اور بصیرت سے بالکل عاری تھا اور میر حاصل خان کے پائے کے منجھے ہوئے پارلیمانی سیاستدان سے یہ بات لگا نہیں کھاتی البتہ جہاں تک عوام کی سوچ کا تعلق ہے تو وہ کسی سیاسی رہنماء کی سیاسی بصیرت ‘ مستقل مزاجی اور جرات کو تسلیم کرتے اور مانتے ہیں اور ان ہی اوصاف کو سامنے رکھ کر وہ سیاسی رہنماء کے بارے میں اچھی یا بھری رائے قائم کرتے ہیں اور پھر آئندہ ہونے والی انتخابات میں سیاسی رہنمائوں کو رد قبول کرتے ہیں لہذا سول سوسائٹی سے اپنے آپ کو منوانا ‘ عوام کو اپنے ایجنڈے پر چلانا اور اپنے فیصلوں کو قبول کروانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ اس کیلئے طویل ریاضت اور جدوجہد چاہئے ہوتا ہے ایسی ریاضت اور محنت دکھانے اور ایسا جدوجہد ثابت کرنے کے بعد عوام اور سول سوسائٹی کسی سیاستدان کو سند عطا کرتی ہے اس لئے کسی امریکہ سیاستدان غالباً صدر نے درست کہا ہے کہ میں چونکہ ان کا (یعنی عوام کا ) لیڈر ہوں اس لئے ان کی پیروی کرتا ہوں ہماری نظر میں وہ شخص لیڈر کہلانے کا مستحق ہے جو عوام کی آدرشوں کا خیال رکھے ان کی خواہشات اور خوابوں کی تکمیل کرے ان کی ترقی خوشحالی اور فلاح و بہبود کے بارے میں سوچے ان کے حسین خوابوں کو بھکرنے سے بچائے نہ کہ وہ جو اپنی ذاتی مفاد کیلئے روز اپنا قبلہ اور اپنے اصول بدلے اور پھر عوام سے توقع رکھے کہ وہ اس کے ہر بھونڈے اور غلط فیصلے کو قبول کریں اس کے اشاروں پر ناچیں اور ڈانس کریں اور اگر عوام میں کوئی باشعور اور پڑھا لکھا شخص اس کے غلط فیصلے کو نہ مانے تو وہ دشمنی پر اتر آئے یہ بلاکونسی سیاست قوم پرست اور عوام دوستی ہے جو 1923 میں نیب کی حکومت کے خاتمے ‘ فدا احمد کی شہادت اور جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سیاسی منظر پر آنے والے سیاستدانوں نے بلوچ عوام سے روا رکھا ہے اب صورتحال یہ ہے کہ ترقی پسندوں اور قدامت پرستوں ‘ لیگیوں اور قوم پرستوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا مفنی سیاست کی وجہ سے ہر سیاستدان اپنے حلقے تک محدود ہو چلا ہے اور انہوں نے اپنی ذاتی مفاد کی خاطر اپنے عوام اور ووٹروں کو گلی ‘ کوچوں اور یونین کونسلوں میں تقسیم کر دیا ہے اس طرح ہر شخص دوسرے سے دست و گریبان ہے کہتے ہیں کہ اس کا یہ خیر میں دوسرے سیاستدانوں کی طرح میر حاصل خان کا بھی کچھ حصہ تھا جسے میں ان کی کوتاہ نظری قرار دیتا ہوں اس لئے کہ وہ میر صاحب کے فرزند تھے اور ان کی سیاست کے وارث تھے لہذا ان کا فرض بنتا تھا کہ وہ اپنی سیاست میں بھی میر صاحب کی اچھی شہرت اور نام کا خیال رکھے مگر بد قسمتی سے انہوں نے نہیں رکھا اور بلوچ سیاسی اور سماجی حلقوں میں گائے بگائے اس کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے ۔
قارئین یہ تو تھیں کچھ باتیں ‘ کچھ حقائق اور کچھ میری اپنی صحیح یا غلط رائے جو میں نے میر حاصل خان اور ان کے رفقاء کے بارے میں آپ سے شیئر کیں آب آتے ہیں ریکارڈ کی جانب جس کے چھان پٹک سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے سیاسی زندگی میں کچھ کچھ مثبت نکے (Plus Point) بھی ہیں انہوں نے رضا ربانی کے ساتھ مل کر جدوجہد کی اور آئین میں اٹھارویں ترمیم لانے میں کامیاب ہوگئے جو بہت بڑی کامیابی تھی یہ الگ بات ہے کہ ہمارا سینٹ یا ایوان بالا مالیاتی بلوں کے حوالے سے اتنا بااختیار نہیں ہے جتنا امریکی سینٹ ہے اس لئے امریکی ریاستیں وفاق کا صحیح نمونہ ہیں جبکہ ہماری اکائیوں اور صوبے براے نام مالی اختیارات کے مالک ہیں اور اٹھارویں ترمیم کے تحت وہ محکمے اور ان کے Assets بھی ابھی تک صوبہ بلوچستان کو نہیں ملے ہیں جو ملنے تھے جبکہ صوبہ سندھ اس حوالے سے بہت بہتر ہے اسی طرح ریکارڈ کی گہی کی روسے میر حاصل خان کی سیاسی زندگی میں ان سے کچھ بڑی سیاسی غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں جو نہیں ہونی چاہئے تھیں جس سے ان کا سیاسی امیج کچھ کم ہوا ہے اور یہ غلطیاں بھی اس لئے نمایاں نظر آتی ہیں کیونکہ ان کی اور میر طاہر بزنجو کی تربیت براہ راست میر صاحب نے کی تھی اور عوام کی بڑی امیدیں ان سے وابستہ تھیں مگر وہ ان پر پورے نہیں اتر سکے اور ویسے بھی انسان ہونے کے ناطے یہ نصیبوں کی بات ہے کہ کس کے حصے میں کتنی شہرت اور نیک نامی آتی ہے جس سے بلوچ شاعرکے مطابق بڑوں کی قبریں روشن اور سرسبز و شاداب ہوتی ہیں (قبر پیرک ئِ انبوہ بیت ) اور قبر کے اندر ان کی روح کو تسکین ملتی ہے ۔
قارئین آپ کو یاد ہوگا کہ میر حاصل خان کی پارٹی نے سردار مینگل کی سربراہی میں حکومت بنائی تھی جو کچھ عرصہ چلی جس کی کارکردگی سے بزرگ بلوچ رہنماء سردار عطاء اللہ مینگل مطمئن نہیں تھے چنانچہ سردار صاحب نے سردار اختر جان اور ان کی کابینہ کے وزراء کو بلایا اور اپنی تشویش سے ان کو آگاہ کر دیا اور ان کو کچھ مفید مشورے بھی دیئے اور سمجھایا کہ بلوچ حکومت ہونے کے ناطے آپ سب پر فرض بنتا ہے کہ عوام کی خدمت کریں اور کچھ اچھے کام کر کے دکھائیں تاکہ تم لوگوں کی حکومت کا نام تاریخ میں زندہ رہے اس نیک اور اچھے مشورے پر عمل کرنے کی بجائے وزراء نے کسی کے کہنے پر بغاوت کی اور وزارتوں سے استعفیٰ دیا اور بہانہ یہ بتایا کہ سردار صاحب نے بلا کر ان کو گالیاں دیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی بلکہ سردار صاحب نے بلوچستان کے سیاسی روایات اور فارمز کو برقرار رکھنے کیلئے کہا تھا کہ وہ اقتدار کے نشے میں اپنی عوام کو بھول نہ جائیں کیونکہ اصل اقتدار عوام کے ہاتھ میں ہے اور ان کا مینڈیٹ ہی اصل چیز ہے اور شاید ان وزراء کو عوام کے نام سے چڑ تھی اس لئے وہ مشتعل ہو گئے اور استعفیٰ دے دیا جس کے نتیجے میں اختر جان کی حکومت ختم ہو گئی اس طرح تاریخ میں ایک پارٹی نے اپنی ہی حکومت تھوڑ کر انوکھی مثال قائم کر دی ’’ دورغ بہ گردن راوی ‘‘ کہتے ہیں اس میں میر حاصل خان کا بھی کچھ دوش تھا جمہوری نظام کی پوری تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ خود کسی پارٹی نے بلاوجہ اپنی حکومت تھوڑی ہو جبکہ آج گڈ گورننس کا شور ہر طرف ہو رہا ہے مگر یہ گالی آج سب کو ہضم ہو رہی ہے فیض صاحب نے درست کہا ہے ۔
وہ بات سارے افسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ ایک بات انہیں ناگوار گزاری ہے
اگر یہ بات سچ ہے تو یہ کوئی اچھی مثال نہیں ہے
یہ ساری صورتحال اس بات کو سچ ثابت کرتی ہے کہ ہم لوگ حکومت چلانے کے اہل ہی نہیں ہیں جب ہم اہل ہی نہ تھے تو اتنا عرصہ کیوں الزام تراشی کرتے رہے کہ ہمیں تو ہمارا جائز حق بھی نہیں دیا جاتا جبکہ بقول کسے آج وزیراعلیٰ ہم میں سے ہے وزیر ہم خود ہیں گورنر اور اسپیکر بھی ہمارے لوگ ہی ہیں بیورو کریٹ ہم میں سے ہیں تعلیمی ادارے ہمارے اپنے ہاتھ میں ہیں ڈاکٹر اور انجینئر بھی ہم میں سے ہیں تو پھر ہماری یہ پسماندگی کیوں ختم نہیں ہوتی شاید اس لئے کہ اب ہم باہمی تضادات میں الجھے ہوئے ہیں اور جن کو ختم نہیں کر پا رہے ہیں تو پھر ہمیں پہلے سے سوچنا چاہئے تھا کہ ہم باہمی تضادات کو کیسے حل کریں گے جب جدلیات کی رو سے ہمیں ان کا سامنا ہو گا تب تو ہم یہ کہتے ہوئے نہ تھکتے تھے کہ ’’بلوچستان میں سرے سے طبقات ہی نہیں ا سلئے یہاں مسئلہ طبقاتی تضاد کا نہیں ہے بلکہ یہاں مسئلہ قومی سوال کا ہے ‘‘ تو یہ متوسط طبقہ کہاں سے آ گیا اقتدار اور طاقت بھی عجیب چیز ہے یہ انسان کو نہ صرف اندھا بناتی ہے بلکہ ثابت ہوا کہ یہ اس سے اس کا حافظہ بھی چھین لیتی ہے تبھی تو غالب نے کہا تھا
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
تو پھر یہ بلوچ کہاوت سچ ہے کہ قصور ہمارے اپنے بازوئوں کا ہے (عیب چہ باسکان انت ) اگر ہم پسماندہ ہیں اس میں کسی اور کا کوئی دوش نہیں
قارئین تاریخ کا جبر دیکھیں ہم کہاں سے چلے تھے اور آج وقت نے ہمیں کہاں لا کھڑا کیا ہے اسی لئے تو فردوسی نے چرخ گردوں کو بھرا بھلا کہاں
تغوبر تو اے چرغ گردوں تغو

اپنا تبصرہ بھیجیں