بلوچستان کی عوام کو انصاف دو

تحریر: بلاول ساجدی
۱۱ اگست ۱۹۴۷ میں بلوچستان ایک آزاد ریاست بن گیا تھا۔بلکل اسی جسے آج جموں و کشمیر ہے۔ جناب محترم قائد اعظم محمد علی جناح نے بلوچستان کو پاکستان کے ساتھ ملانے کی پیشکش دی۔ آخرکار۱۹۴۸ میں بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنایا گیا۔پاکستان کے حصہ بننے کے بعد بلوچستان کو پاکستان کا صوبہ بنایا گیا۔جب سے بلوچستان پاکستان کا حصہ بنا ہے۔اس دن سے لیکر آج تک بلوچستان کی آبادی باقی تمام صوبوں سے بہت کم اور رقبہ زیادہ تر ہے۔ اور صوبوں کی رقبہ کم آبادیاں زیادہ تر ہیں۔
باقی تمام صوبوں میں سب چیزوں کی سہولیات میسر ہے۔تعلیم،صحت اور تمام بنیادی سہولیات بہت اچھی طرح میسر ہیں۔مگر افسوس بلوچستان میں میسر نہیں ہیں۔
بلوچستان سے سوئی گیس وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔مگر اس صوبے کے لوگ گیس کی سہولیات سے محروم ہیں۔یہاں تک گوادر جسے مشہور شہر میں لوگ لکڑیوں یا LPG گیس کے سلینڈر استعمال کرتے ہیں۔
بلوچستان میں قریب۵۲ اقسام کے معدنیات پائے جاتے ہیں۔جس میں سونا بھی شامل ہے۔سونا نکلنے کا کام چین کو دیا گیا۔ چین سونے کو کر سستے داموں میں لے کر جا رہا ہے۔ میرا سوال یہاں پر یہ ہے کیا پاکستان میں اسے انجنیئر یا اسی مشینری نہیں تھا جو یہ کام چین کو دیا گیا۔اعلیٰ اقسام کی ماربل پایا جاتا ہے جو کہ باہر ممالک میں اچھی داموں میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔اسی طرح تمام معدنیات کو نکال کر ایکسپورٹ کیا جا رہا ہے۔ تمام معدنیات کی ایکسپورٹ کرنے کی نتیجے میں جو آمدنی آرہا ہے۔اسکا ایک چوتھائی حصہ بھی بلوچستان اور بلوچستان کی غریب عوام پر خرچ نہیں کیا جارہا ہے۔
بلوچستان کی پسماندگی کی یہ حالت ہے کہ اسکی کئی علاقوں کی عوام کو دن میں ایک وقت کا کھانے کو خوراک نصیب نہیں ہوتا ہے۔وہ بچارے روز جیتے ہے اور روز مرتے ہے۔ انکا مدد کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ نہ وہ بچارے اپنے بچوں کو تعلیم دے سکتے ہے۔ اور نہیں انکا کوئی جاہز خواہشات کو پورا کر سکتے ہیں۔ اور وہ غریب لوگ صبح سے شام تک یہی انتظار کرتے ہیں کوئی آئیں انکی مدد کریں تاکہ انکا خوراک کا بندوست ہو جائیں۔
۲۰۰۳ سے بلوچستان کا امن وامان کا صورتحال بہت زیادہ خراب ہونا شروع ہو گیا تھا جو تاہم بہتر نہیں ہوسکا۔ ابھی چند مہینوں میں بلوچستان کے علاقے تربت میں کہی ناخوشگوار واقعات پیش آئیں۔مگر تاہم کسی کی بھی لواحقین کو انصاف نہیں ملا۔ نہیں برمش کو انصاف ملا، نہیں حیات بلوچ کی لواحقین کو انصاف ملا، اور نہیں،اور نہیں شاہینہ شاہین کو انصاف ملا۔اور یہ تینوں واقعات چند دنوں کے فاصلوں میں پیش آئیں ہیں۔
سب سے زیادہ افسوسناک واقعات حیات بلوچ کا ہے۔اسکو اسکے والدین کے سامنے بے گناہ قتل کیا گیا۔ حیات بلوچ جامعہ کراچی کا طالب علم تھا۔ قدرتی وباء کرونا وائرس کی باعث تمام تعلیمی ادارے بند کیے گئے تھے اس میں جامعہ کراچی بھی شامل تھا۔ جامعہ کراچی بند ہونے کی وجہ سے حیات بلوچ نے سوچا اسی بہانے تربت جاکر اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے مل کر آجاؤں۔ تو یہ سوچ کر حیات بلوچ اپنے گھر کے لیے کراچی سے تربت کے سفر کے لیے روانہ ہو گیا۔ اسکو یہ نہیں معلوم تھا یہ سفر اسکی زندگی کی آخری سفر ہوگا۔
۱۳اگست کے دن پوری پاکستانی قوم جشن آزادی بنانے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ مگر بلوچ قوم حیات بلوچ کی موت کا سوگ بنا رہا تھا۔ ۱۳ اگست کے دن حیات بلوچ اپنے والدین کے ساتھ اپنے گھر کے قریب کھجور کی کھیت میں کام کر رہا تھا۔ کہ اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ وہ دھماکہ قریب سے گزرتی FC کی گاڑی پر ہوا۔ FC کی گاڑی بال بال بچ گیا۔ اسکے بعد FC اہلکاروں نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔اور FC اہلکار اس کھجور کی کھیت میں پونچھے جہاں حیات بلوچ اپنے والدین کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ تو FC اہلکار نے اسکو پکڑ کر مارنا شروع کیا اور اسکے ماں کا دوپٹہ لے کر آنکھوں میں پھٹی باند کر اسکو گھسیٹتے ہوئے روڈ پر لاکر آٹھ گولیاں ماری اس سے حیات بلوچ شہید ہوگیا۔ حیات بلوچ کی والدین نے FC اہلکاروں کی بہت منت سماجت کی مگر انھوں نے ایک بھی نہیں سنا۔ جب حیات بلوچ کو شہید کیا گیا اسوقت اسکے جیب سے اسکا قلم زمین پر گرا اور حیات بلوچ کی لہو سے سرخ ہو گیا۔یہ وہی قلم تھا جس سے حیات بلوچ اپنی اور پاکستان کی مستقل لکھنا چاہتا تھا۔ بات یہ ہے حیات بلوچ کس قسم کے دہشت گرد تھے جو جہالت سے زیادہ تعلیم کو ترجیح دیتے تھے اور ہتھیار کی جگہ قلم رکھنے کو پسند کرتے تھے۔اگر وہ دہشت گرد تھا FC اہلکار اسکو پکڑ کر تفتیش کرتے عدالت میں پیش کرتے اسکو سزاء عدالت دیتا۔یوں بے دردی کے ساتھ والدین کے سامنے قتل نہیں کرتے۔ اسکے بعد کہا جاتا ہے غلطی ہوگئی تھی۔اس واقعے کو مہینہ گزر گیا FC اہلکار کی گرفتاری کے باوجود بھی حیات بلوچ کو انصاف نہیں ملا۔
اس واقعے کے بعد میڈم شاہینہ شاہین کا واقعہ پیش آیا جو ایک سوشل ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ PTV BOLAN کی بلوچی پروگرام کی Host بھی تھی۔ اور ساتھی ساتھ ایک میگزین جس کا نام”دزگوار "ہے اسکا ایڈیٹر بھی تھی۔ اسکو کچھ دن قبل اسکے اپنے شوہر نے قتل کیا۔اور بلوچستان کو ایک عظیم بیٹی سے یتیم کر لیا۔ اور اب تک قاتل کی گرفتاری نہیں ہو سکا۔
پچھلے دنوں اسد عمر صاحب تربت میں دورے کے دوران کہتے ہیں کہ بلوچستان کے مسائل ہم اسلام آباد میں بیٹھ کر حل نہیں کر سکتے ہم بلوچستان میں آکر مسائل کو حل کرینگے۔ مگر یہ نہیں کہتا بلوچستان میں امن کو بحال کرینگے۔ اسکے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم بلوچستان میں ترقیاتی کام کرینگے تجارت کے راستے کھول دینگے۔ مگر افسوس اپنے صوبے کی امن وامان کے لیے ایک لفظ تک نہیں کہا۔
بس انکو بلوچستان کو لوٹنا ہے اور کچھ نہیں۔ پیسے کی چمک کی وجہ سے انکی آنکھیں آندھی ہو چکی ہے اور کان بہرے اور انکا ضمیر مر چکا ہے۔
جب آپ لوگ بلوچستان کو لوٹنے کے لیے سب کچھ کرتے ہو۔ تو خدارا بلوچستان میں بسنے والوں پر رحم کرو۔ اس دشت جیسی زمین میں محبت کی پھول اگاؤ تاکہ اسکی خوشبو پورے پاکستان میں مہک جائیں۔
بلوچستان میں منشیات کے روک تھام کے لیے بلیدہ کے عوام نے بھرپور کوشش کی۔اور بلیدہ کو منشیات سے مکمل پاک کیا۔ اس جہدوجہد کے بعد پورے بلوچستان میں عوام بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ بلوچستان سے منشیات کا مکمل خاتمہ ہو جائے۔ مگر انکو حکومتی سطح پر کوئی مدد حاصل نہیں ہیں۔ بلوچستان کی عوام اپنی مدد آپ کے تحت منشیات کے خلاف تحریک شروع کیا اور جو کامیاب ہو رہا ہے۔
بلوچستان میں ایک عظیم عورت محترمہ فرح عظیم شاہ جو ایک ٹرسٹ ایمان پاکستان کے نام سے چلا رہی ہے۔ صرف غریب عوام کی مدد کے لیے۔ وہ صرف بلوچستان یا بلوچ قوم کے لیے کام نہیں کر رہی ہیں بلکہ پورے پاکستان میں بسنے والے تمام غریب عوام کے لیے کر رہی ہیں۔ انکو غریب عوام کی فخر ہے۔ مگر ان سیاستدانوں کیوں نہیں ہے۔ یہ سیاستدان انہی غریبوں کی ووٹ سے ایوانوں میں پہنچتے ہیں۔ مگر ایوانوں میں پہنچ جانے کے بعد غریب عوام کو بھول جاتے ہیں۔
اقتدارِ اعلیٰ کو چاہیے کہ بلوچستان کے معملات اور امن وامان کو بحال کرنے کے لیے کمیٹی بنائیں۔ بلوچستان کے صورتحال اور امن وامان کو یقینی بنایا جائیں۔ بلوچستان میں بسنے والے لوگوں کا خیال رکھنا صوبائی حکومت کے ساتھ وفاقی حکومت کی بھی ذمہداری ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں