نشے کا ناسور نفسیاتی مسائل کی جڑ

تحریر : مدثر محمود
ہمارے معاشرے میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان اور نفسیاتی مسائل کسی سنگین خطرے سے خالی نہیں ہر روز جب ہم اخبارات اور سوشل میڈیا پر اس طرح کی خبریں دیکھتے اور سنتے ہیں کہ نشے کی لت کس طرح نوجوانوں کو کھوکھلا کررہی ہے
منشیات کا استعمال ایک ایسی لعنت ہے جو سکون کے دھوکے سے شروع ہوتی ہے اور زندگی کی بربادی پر جاکر دم لیتا ہے نشے کی لعنت صرف ہائیر تعلیمی اداروں اور ہائیر سوسائٹی میں ہی نہیں بلکہ جگہ جگہ ایک فیشن کے طور پر سامنے آرہی ہے کہیں غلط صحبت ملنے سے قوم کے معمار نشے کے عادی ہوجاتے ہیں اور کہیں اپنے مسائل سے ڈر کر اور کئی حقیقت سے فرار حاصل کرنے کے لئے بھی نشہ کا سہارا لیتے ہیں
پھر یہ فیشن یہ شوق وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت بن جاتا ہے اور اس طرح وہ شخص مکمل طور پر نشے کاعادی بن جاتا ہے۔ اورپھر اس کے دل و دماغ کو مکمل تباہ و برباد کردیتا ہےوہ شخص ہر وقت نشے میں بدمست رہتا ہے۔ اور اس کو پورا کرنے کے لئے ہر وہ غلط کام کرنے لگتا ہے جہاں سے پیسے حاصل کرکے اپنے جسم کی جھوٹی تسکین کو پورا کرے اور یوں اچھا بھلا تندرست صحت مند انسان اپنی زندگی کو تباہی کی دہلیز پر لا کر کھڑا کر دیتا ہے نشے کی لت میں مبتلا نوجوان سے ملاقات ہوئی اور نشے کرنے کی وجہ جاننے کی کوشش کی اور معاشرے کے جبر کے شکار نوجوان نے بتایا کہ
کی در بھری کہانی کچھ یوں ہیں کہ آج وہ جس حال میں ہے اس کا ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہے اسکی زندگی بھی ایک عام انسان کی طرح تھی خوشحال اور پرسکون تھی والد بہت پیار کرتا تھا ایک دن جب وہ یہ دنیا چھوڑ کر چلے گئے تو پریشانیوں نے گھر میں ڈھیرے ڈال دئے ماں کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب کیا کیا جائے تھوڑے عرصے بعد
اپنی پسند کی شادی کی اور میری شادی کو کچھ وقت ہی گزار تھا تو گھر کے حالات والد کے جانے بعد مکمل طور پر تبدیل ہوگئے یہی سمجھو کہ گھر کا پورا نظام وقت کے ساتھ بدل گیا تھا
پوری طرح سے میں ذہنی اذیت کا شکار ہوگیا مجھے منشیات کی لیت دوستوں کے زریعے لگی ۔مجھے لگا شاید اس سے مجھے کچھ سکون ملے گا مگر اب یہ میری خوراک کا حصہ بن گیا ہے میں نے کہی بار نشے سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی مگر مجھ سے یہ نہیں ہو پایا مجھے علاج کے لیے کچھ منشیات کا علاج کرنے والے بھی لے گئے اور چار دن رکھنے کہ بعد مجھے واپس بھیج دیا ۔مگر مجھے ابھی اچھا نہیں لگتا مجھے ہر تیسرا بندہ گلیاں دے کر کہتا ہے چلے جاو یہاں سے
نشے کے عادی شخص نے سوالیہ نگاہوں سے مجھے دیکھا اور اس سوال کیا کہ اس منشیات کو کنٹرول کیوں نہیں کیا جاتا تاکہ مزید لوگ سے ناسور کاشکار نہ ہوسکے نشے کے عادی افراد سے نفرت کرنے کی بجائے نشے سے نفرت کی جائے کیونکہ منشیات کا استعمال کرنے والے اور اسکے عادی افراد عام آدمی کی زندگی گزارنے کی بجائے عضو معطل بن کر رہ جاتے ہیں اس لعنت کو ختم کرنے کیلئے متعلقہ اداروں کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر حالات سے راہ فرار حاصل کرنے والے نشے کا شکار ہوکر سماج کو مزید کھوکھلا کرتے رہے گے نشہ پورا کرنے والے چوری ۔حتیٰ کہ ڈکیتی اور راہزنی جسے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور غلط کام کیلئے غلط راہ کا انتخاب کرتے رہتے ہیں ۔
منشیات کی عادت ایک خطرناک مرض کی ماند ہے۔ یہ خود انسان کو اور اس کے گھربار کو معاشرے اور پورے ملک و قوم کو تباہ کر دیتی ہے ایک بار نشے کرنے کا عادی جب کوئی بن جاتا ہے تو وہ خطرناک بھنور میں پھنستا ہی چلا جاتا ہے پھنسنے کے بعد اس کے مضر اثرات کا انہیں ادراک اسے ہوتا ہے۔
آج پوری دنیا میں منشیات کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے لیکن اس کے باوجود منشیات کا استعمال میں دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے ایسا آخر کیوں ہے یہ ایک ایسا میٹھا زہر ہے جو انسان کو دنیاو آخرت سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ اس کو استعمال کرنے و الا ہر شخص حقیقت سے فرار حاصل کرتا ہے اور خیالوں میں بھٹکتا رہتاہے منشیات کی لت پہلے پہل ایک شوق ہوتی ہے پھر آہستہ آہستہ ضرورت بن جاتی ہے نشےکا عادی شخص درد ناک کرب میں پل پل مرتا ہے اور جیتا ہے اس کی موت صرف اس کی نہیں ہوتی بلکہ اس کی خواہشات اور تمناؤں کی بھی موت ہوتی ہے۔کوئی اگر نشہ کرنا شروع کرتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ، کوئی واقعہ، مایوسی، محرومی اور ناکامی کا کوئی پہلو ہوتا ہے لیکن انسان یہ کیوں نہیں سوچتا کہ مایوسی اور ناکامی کا علاج صرف نشہ کرنا نہیں۔ بلکہ نشہ انسان کی صحت کے لیے زھر قاتل ہے
منشیات کے استعمال کو روکنے اور نوجوانوں کو اس لت سے دور رکھنے کیلئے مثبت سرگرمیوں کی طرف مائل کرنا معاشرے کی مشترکہ زمہ داری یے ایک دوسرے کا خیال رکھا جائے تو بہت سے نوجوانوں کو نشے کا عادی ہونے سے بچایا جاسکتا یے جس کیلئے ضروری یے کہ ،، انسانیت کا احساس کیا جائے اور اس اہم اور بنیادی کام کیلئے کسی ذات پات مذہب رنگ ونسل کی ضرورت نہیں ہوتی احساس ہی نیکی کی بنیاد اور کسی بڑے سے بڑے کام کی ابتدا ہوتی ہے معاشرے کا ہر فرد برائی کے خاتمے کا احساس کرے تو اس سماج کو کھوکھلا ہونے سے بچایا جاسکتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں