ایک اور قیمتی اثاثہ کا نقصان

تحریر؛نجیب یوسف زہری
قربانی کے جس موڑ پر ابھی ہم کھڑے ہیں
یہاں سارے درد اب برداشت سے پرے ہیں

اتنا تو جنگوں میں بھی نقصان نہیں ہوا ہے ۔جتنے ہمارے لوگ روڈ حادثات میں مرے ہیں۔
حادثات پر حادثات ہوتے ہیں لیکن کوئی یاد نہیں رکھتا دو چار روز بات کرکے پھر کوئی بات نہیں کرتا،
مسائل کا تذکرہ سب کرتے ہیں لیکن حل کوئی تلاش نہیں کرتا ،جس کیےجی میں جو آئے وہ کہتا مگر کوئی عقل کی بات نہیں کرتا،
جو چلا گیا دہر دو سارے الزام اس پر
زندوں پر کوئی الزام کیوں نہیں کرتا

ایک اور بڑا حادثہ جس میں قوم کی بیٹی اور تعلیمی اداروں کی ٹاپر جو اس قوم کی مقدر بدلنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

ڈاکٹر شہر بانو جو کہ بولان میڈیکل کالج سے MBBS کی طالبہ تھی اور اپنا ایک سمسٹر امریکہ سے سکالرشپ کے ذریعے پڑھ کے آئی تھی اور سب سے بڑھ کر قرآن پاک کی حافظ بھی تھی.
ایسے قیمتی سرمایہ کے بچھڑ جانے کا نقصان صرف خضدار کا نہیں بلکہ پورے ملک کا نقصان ہے۔

اس روڈ پہ بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں اور بھی ہو رہے ہیں اور مستقبل میں نہ جانے کتنے اور قیمتی جانیں ضائع ہوں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے اور ہمارے وزیراعظم،وزیراعلٰی، لوکل ذمہ داران اور NHA ہر طرح سے ہمارے عوام اور نوجوان نسل کے قاتل ہیں۔

اپنی پیاری شہید بہن سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں
میری پیاری بہن میں مجبور، لاچار اور بے بس تھا آپ کے لئے اور آپ سے پہلے شہید ہونے والوں کے لیے کچھ نہ کر سکا، میں چیختا چلاتا رہا اور صدائیں بلند کرتا رہا لیکن یہ اندھے بہرے حکمرانوں کو فنڈز اور بجٹ کی رقم میں زیرو تو نظر آتے ہیں لیکن ان کو ہمارے حادثات میں نعشیں اور آنسو نظر نہیں آتے اور ہماری روتی ہوئی سسکیاں سنائی نہیں دیتی اورانھوں نے ہمارے مسائل کو مذاق بنا رکھا ہے۔

میری پیاری شہید بہن آپ کے ابا جان کی خاموشی نے ہزار سوالات کیے مجھ سے۔

 بے بس لاچار غمزدہ باپ کی آہوں ، سسکیوں ، ہچکیوں اور آہ و بکا ہ سے میرے دل کے در و دیوار لرز رہے تھے ماحول کی سوگواریت ہما رے اندر تک اتر چکی تھی لگ رہاتھا دکھی باپ کے غم میں ہر چیز نے ماتمی لباس پہن لیا ہے۔

میں بے بسی سے بیٹھا سو چ رہا تھا کہ کس طرح اِس بے بس غمزدہ با پ کی مدد کروں اِس کی سسکیوں آہوں کو دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے

غمزدہ باپ صبر و استقامت کا پہاڑ تھا پھر بھی
اِس نے رب کا شکرادا کیا۔

لیکن اِس کا دامن خالی کا خالی ہی رہا زندگی کی آگ برساتی سلگتی حقیقتوں کا صبر سے مقابلہ کیا۔

تو باپ کا پیما نہ صبر چھلک پڑا باپ بیٹی کے عظیم رشتے کے گداز اور نزاکت کو وہی سمجھ سکتے ہیں جن کی بیٹیاں ہیں۔

جو بیٹیوں کا درد محسوس کر تے ہیں کیونکہ بیٹیاں تو معصوم رنگ برنگی تتلیوں کی طرح ہو تی ہیں جو مسائل اور مصائب کی ہلکی آنچ سے ہی مرجھا جا تی ہیں۔

یہ معصوم کلیاں مو سم کی ذرا سی سختی سے ہی پھیکی پڑ جا تی ہیں باپ جو ہر مشکل پر مسکراتا رہا لیکن جیسے ہی بیٹی کی شہادت کا سن کے

چہرے پر اداسی کا رنگ اترا،

بیٹی کسی بھی باپ کا حساس حصہ ہو تی ہے میں نے بڑے بڑے مضبوط اعصاب کے والدین کو دیکھا ہے جو وہ بیٹی ک غم میں بدل گئے ٹوٹ کر بکھر گئے۔

اِس رشتے پر ذرا سی آنچ آئی نہیں اور با پ کی کمر غم سے جھکی نہیں با پ کی چیخیں نکلی نہیں ۔

یہ شخص بھی صبر تشکر کا پہاڑ تھا
رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر
عمر کے اس حصے میں کھڑا وہ بزورگ شخص جدائی کا صدمہ برداشت کر نے کی کوشیشوں میں تھا۔

آپ کا زخمی بھائی جس کو آپ کی شہادت کا علم بھی نہیں تھا اس کی لاعلمی کا درد اور بار بار بہن کودیکھنے کی ضد میرے مردے زمیر کو بار بار جنجھوڑ تارہا، پر میں کیا کرتا میں بھی اس خاموش،گونگے، بہرے اندھے عوام کا حصہ ہوں جو حادثات پر افسوس تو کرتے ہیں، نعشیں اٹھاتے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں لیکن افسوس اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھا تے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں