ایرانی تیل سے نایاب نسل کے کچھوؤں کی زندگیاں غیرمحفوظ

تحریر: ساجدنور
بلوچستان بالخصوص مکران میں لوگوں کے روزگار کا سب سے بڑا دارومدارہمسایہ ملک ایران سے آنے والی خوردونوش کی اشیاء کے ساتھ ساتھ ایرانی تیل جس میں ڈیزل اور ایرانی پٹرول شامل ہے پر منحصر ہے ایرانی بارڈرسے متصل مکران کے جتنے بھی علاقے ہیں وہاں ایرانی اشیاء وافر مقدارمیں ملتی ہیں۔

مکران کے ”مندردیگ “بارڈرسے روزانہ سینکڑوں کی تعدادمیں گاڑیاں پاکستان کی حدودمیں داخل ہوتی ہیں چونکہیہ تمام کاروبار قانونی ہوتی ہیجس کی وجہ سے کسٹم اور دیگرادارے اُنہیں باقاعدہ قانونی طور پرروٹ ٹرولنگ کی اجازت دیتی ہیں،گوادرکے شہرجیونی کا سمندری اور زمینی راستہ بھی ایرانی بارڈرسے جا ملتی ہے۔

رواں ہفتہ ایم این اے لسبیلہ گوادرمحمداسلم بھوتانی اور ایم پی اے گوادرمیرحمل کلمتی نے ایران کا دورہ کیا اور پاک ایران 250بارڈرتجارتی منصوبے پر کام کے حوالے سے ایرانی حکام سے ملاقات کی اس موقع پر ایم این اے محمداسلم بھوتانینے کہاکہ پاک ایران 250بارڈر تجارتی منصوبے پرکام دوماہ بعد شروع کردی جائے گی دوسری جانب نیشنل ہائی وے اتھارٹی ایسٹ ریجن کے جی ایم مشتاق احمدکبدانی نے ایم این اے محمداسلم بھوتانی اور ایم پی اے گوادرمیرحمل کلمتی کو ایک بریفنگ کے دوران بتایاکہ مکران کوسٹل ہائی وے کو پاک ایران بارڈرتک منسلک کرنے کے لیئے چارکروڑدس لاکھ روپے کی لاگت سے روڑکی تعمیرات کا منصوبہ منظورکیاگیا ہے اور اگلے دوماہ کے دوران منصوبے پر باقاعدہ کام کا آغازکردیا جائے گا یہ ایک دوروئیہ سڑک ہوگی جہاں مسافروں کی سہولت کے لیئے شیڈ،ہال،اور پانی کی حصول کو بہتربنانے کے لیئے ٹینکی تعمیرکی جائے گی۔

واضح رہے کہ پاک ایران 250بارڈر ایک انٹرنیشنل بارڈرہے جہاں سے روزانہ ہزاروں لوگ قانونی طورپر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور اس بارڈرسے قانونی طور پر تجارت سے ملک کو سالانہ اربوں روپے کی ٹیکس حاصل ہوگی جو ملکی معیشت میں اہم کردارادا کریگی،لیکن ایرانی ڈیزل اور پٹرول تیل کے حوالے سے پالیسی کیا ہوگی اس سلسلے میں ابھی تک کوئی گزارشات سامنے نہیں آئی۔

ایران سے متصل جیونی کے سمندری راستے سے اسپیڈبوٹوں کے زریعے روزانہ لاکھوں لیٹرایرانی تیل کی اسمگلنگ ہوتی ہے اوران لوڈنگ کے دوران ایرانی تیل کا ایک بڑا حصہ سمندرمیں جاگرتی ہے جس سے آبی حیات کی زندگیوں کو شدیدخطرات لاحق ہیں عینی شاہدین کے مطابق سینکڑوں کی تعدادمیں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں سمندرکنارے مردہ حالت میں پائی گئی ہیں۔
مکران خاصکرضلع گوادرکے سمندرکا المیہ یہ ہے کہ ایک جانب غیرقانونی ٹرالنگ سے اُس کے سمندری حیات کو نقصان پہنچاجارہا ہے تو دوسری جانب ایرانی تیل سے اس کے ساحلوں کو تباہ کیا جارہا ہے غیرقانونی ٹرالنگ کو روکنے اور غیرقانونی طورپر ایرانی تیل کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیئے جو ادارے بنائے گئے ہیں اُن کے کردارپر ہمیشہ سوال اُٹھائے گئے۔

جیونی کے ساحلی علاقے ”کُنٹانی“ کے ساحل پر ایرانی تیل کی اسمگلنگ کی وجہ سے جونقصانات ہورہے تھے اِس پر وہاں کے مقامی ماہی گیروں نے احتجاج کیا جس پر انتطامیہ حرکت میں آگئی اور ڈیزل مافیا کو وہ علاقہ چھوڑنا پڑا لیکن اب ڈیزل مافیا نے جیونی کے انتہائی خوبصورت سیاحتی پوائنٹ ”دَران“ کا رُخ کرلیا ہے،”دَران“ ایک اہم سیاحتی پوائنٹ ہے جہاں ملک بھرسے سیاح آتے ہیں اور وہاں غروب آفتاب کے دلکش منظرکو اپنی یادوں اور اپنے کیمرے میں محفوظ کرلیتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ”دَران“ سمندری حیات کی فزائش نسل کے لیئے ایک محفوظ مقام ہے یہاں پر نایاب نسل کے کچھوے آکر انڈے دیتی ہیں اوراُن کے بچے ساحل کنارے ریت پر گھومتی رہتی ہیں۔

مکران کے ساحلی علاقے ”دَران بیچ“ ”اسٹولہ جزیرہ“ اور ”تاک بیچ“ ایسی جگہیں ہیں جہاں پر نایاب کچھوے آکرانڈادیتی ہیں اور یہی سے اُن کی افزائش نسل ہوتی ہے نایاب ”گرین ٹرٹل“ اورنایاب نسل کےOlive Redlyکچھوے یہاں وافرتعدادمیں پائی جاتی ہیں اور کچھوؤں کی کچھ نسل ایسی ہیں جو آج پوری دنیا میں نایاب ہیں لیکن ”اسٹولہ جزیرہ“ اور ”دَران“کے سمندرکنارے وہ دیکھے گئے ہیں

ساحلی علاقوں میں کنزرویشن پرکام کرنے والا ادارہ ڈبلیو ڈبلیوایف پاکستان ان نایاب کچھوؤں کی افزائش نسل کو بہتربنانے اور اُن کی مسکن کو محفوظ بنانے کے لیئے کام کررہی ہے لیکن اُنھیں اپنے کام میں مذیدبہتری لانے کی ضرورت ہے۔
”دَران“ کے ساحل کنارے ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے دوران سمندراور ساحل پرجس مقدارمیں ایرانی تیل گررہی ہے اورتیل کی بوسے اِن آبی حیات کو شدیدخطرات لاحق ہوچکی ہیں اورنایاب نسل کے کچھوؤں کے بچے ساحل کنارے دردرپھررہی ہیں اور اُنھیں اپنا مسکن بنانے کے لیئے کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں مل رہا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں