5اکتوبر ٹیچرزڈے

تحریر۔ابوبکردانش بلوچ۔
5 اکتوبر کو ہر سال دنیا بھر میں سلام ٹیچر ڈے منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ رسم ادا کی گئی مغربی اقوام اور پاکستان کے حکمرانوں میں اس دن کی اہمیت اور افادیت مختلف ہے۔ مغربی ممالک اس دن کی نسبت سے دیکھتے ہیں کہ وہ کون کونسی مزید سہولتیں اور مراعات ہیں جو وہ اپنے ٹیچرز کو دے سکتے ہیں ادھر ٹیچرز کی ڈیمانڈز اور مطالبات کو ہمیشہ اولیت دی جاتی ہے اور ہر وہ قدم اٹھایا جاتا ہے جس سے ان کے ٹیچرز کے قریب کسی قسم کی ذہنی پریشانی ان کے آرام و سکون کو تباہ کرنے والی ذرہ سی بھی کوئی کسر رہ نہ پائے۔ مغربی ممالک اپنے ٹیچرز کی ہر طرح سے دیکھ بھال ان کی معاشی، رہائشی اور معاشرہ میں خصوصی مراعات دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ اس دن ادھر سہولتیں، اِدھر صعوبتیں، ادھر آسائشیں، اِدھر صرف نمائش ادھر اساتذہ کو تمام وسائل مہیا کئے جاتے ہیں جبکہ اِدھر ہمارے ہاں اساتذہ کیلئے مسائل ہی مسائل پیدا کئے جاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں سب سے زیادہ عزت استاد کو دی جاتی ہے۔ مگر یہاں ہمارے ہاں سب سے کمزور، مجبور اور مظلوم طبقہ اساتذہ ہیں۔ ہمارے ہاں اساتذہ کو زیادہ سے زیادہ زمینی تفکرات اور ان کے بچوں کے روزگار سے اطمینان قلب نصیب نہیں ہے۔ محکمہ کے افسران اساتذہ کو اپنے ذاتی ملازم اور تعلیمی افسران اساتذہ کو اپنے ذاتی غلام سمجھتے ہیں۔ ان کا بول ان کا کلام اساتذہ کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ ہمارے ہاں حکمرانوں نے اساتذہ کے عجیب و غریب ناروا پابندیاں لگا رکھی ہیں جس سے اساتذہ ذہنی کرب میں مبتلا ہیں ذرہ سے دیرہونے پر اساتذہ کے حاضری رجسٹر کے خانہ میں غیرحاضر لکھ دیا جاتا ہے۔ جبکہ ایسا کرنے کا ملک کے وزیراعظم کو بھی اختیار نہیں ہے مزید اساتذہ کو غیر حاضری پر بھاری جرمانے کئے جاتے ہیں۔ انہیں یہ بالکل معلوم نہیں ہے کہ غیر حاضری سے ان کی سروس بریک ہو جاتی ہے اور جرمانہ سے وہ مزید ملازمت کیلئے نا اہل ہو جاتا ہے۔ خاندان کے علاوہ کسی اور کی مرگ پر چھٹی کی اجازت نہیں ہے۔ خاندان میں مرگ کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی کیلئے بھی مرنے سے ایک دن پہلے چھٹی لیں کہ اس کا فلاں کل فوت ہو رہا ہے لہذا اسے چھٹی دی جائے۔ واضح رہے کہ یہ سب احکامات زبانی زبانی دیئے جاتے ہیں ان کیلئے کوئی چھٹی سرکاری نوٹیفکیشنز موجود نہیں ہے۔ اساتذہ کو جرمانے مگر اسمبلی ارکان جو سال سال اسمبلی بلڈنگ میں داخل بھی نہیں ہوتے انہیں پوری تنخواہوں اور مراعات سے نوازا جاتا ہے 25، 30 سال تک ایک پرائمری سکول ٹیچر اسی گریڈ میں اسی پوسٹ سے ریٹائر ہو کر گھر آ جاتا ہے۔ اساتذہ جب بھی اپنے مسائل کا ذکر کرتے ہیں تو وسائل محدود ہیں کا رونا رویا جاتا ہے۔ اساتذہ کی پوسٹنگ دیدہ دانستہ ان کے گھر سے دور کر کے انہیں زمینی پریشانیوں میں مبتلا کیا جاتا ہے اور پھر نزدیک لانے کیلئے ان سے بھاری رشوت وصول کی جاتی ہیں ضلعی افسران ائرکنڈیشن گاڑیوں میں بیٹھ کر اساتذہ کو چیک کرتے ہیں وہ بھی اگر بسوں رکشوں پر بیٹھ کر دھکے کھاتے چیکنگ کریں اور پھر انہیں محسوس ہو اور شاید احساس بھی ہو کہ اساتذہ دور دراز بسوں میں کیسے سفر کرتے ہیں اگر ذرا سا تھپڑ کسی بچے کو لگ جائے تو اساتذہ کو جیل کی ہوا یا نوکری سے فراغت کا پروانہ دے دیا جاتا ہے۔ ٹک مارک نے تعلیم کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی کوئی تعلیمی پالیسی نہیں ہے۔ ایک مرد واحد کی ہفتہ وار سوچ اور فکر ہی کو پالیسی کا رنگ دے کر اسی پر محکمہ چلایا جا رہا ہے اور یہ پریکٹس گزشتہ 70 سال سے جاری و ساری ہے۔ اگر حکومت اساتذہ سے واقعی ہمدردی ہے تو پھر وہ ٹیچرز ڈے کی نسبت سے اساتذہ کے مسائل حل کرتے انہیں با عزت مقام دینے کے اقدامات کر کے حکمران مغربی ممالک کی نقل کرتے ہوئے مجبورا یہ دن مناتے ہیں مغربی ممالک بن مانگے اپنے اساتذہ کو بھرپور مراعات سے نوازتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں مطالبات کو وعدہ کر کے ٹال دیا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغربی ممالک اور ہمارے ملک میں سلام ٹیچر ڈے منانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں کو اساتذہ سے سچی محبت ہے تو آج کے دن کی نسبت سے ریٹائرڈ حاضر سروس اساتذہ کے بچوں کا 20 فیصد ختم کیا گیا کوٹہ بحال کریں ایسے حالات میں میں پوچھ سکتا ہوں کہ کیا پاکستان میں منایا جانے والا ٹیچرز ڈے فی الواقع پاکستانی ٹیچرز کا سلام ٹیچر ڈے قرار دیا جا سکتا ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں