نظام انصاف کا فقدان

تحریر:اورنگ زیب نادر
جس ملک میں لوگ روزانہ انصاف کے لئے سڑکوں اور کیمپوں میں بیٹھ کر احتجاج کررہےہوں تو اُس ملک کا اللہ حافظ ہے ۔قدرت نے اس ملک کو ہر شے سے نوازا ہے لیکن بدقسمتی سے ملک میں نظام انصاف فقدان ہے۔

لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق تقریباً 19 لاکھ مقدمے مختلف عدالتوں میں فیصلوں کے منتظر ہیں۔ ان میں کئی مقدمات ایسے ہیں جو تقریباً 25 سال سے فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسی طرح پانچ ہائی کورٹس میں 293947 مقدمات اور سپریم کورٹ میں 38539 جبکہ نچلی عدالتوں میں تقریباً 16 لاکھ سے زیادہ مقدمے سالوں سے فیصلوں کے منتظر ہیں۔

ضلع کیچ میں چند کیس زیر سماعت ہیں۔جس میں سانحہ ڈھنک،سانحہ دازن،حیات بلوچ کو بےدردی سے قتل کرنا اور شاہینہ شاہین کو مبینہ طور قتل کرنا۔ کیا ان کو انصاف مل جائےگا_؟ ذرا سوچیں کہ سانحہ ڈھنک کے ملزمان اب تک آزاد گھوم رہےہیں اور ایسے سانحہ دازن کے ملزمان بھی ۔حیات بلوچ کو بہ دردی سے شہید کرنا اور شاہینہ شاہین کو قتل کرنا لیکن ان کے ملزمان اب تک آزاد گھوم رہےہیں۔برمش،کلثوم کے بچے،شاہینہ شاہین کے خاندان اور حیات بلوچ کے والدین اب تک انصاف کے منتظر ہیں پتہ نہیں انصاف مل جائےگا یا۔!

بین الاقوامی طور پر یہ صورت حال ہمارے لیے مزید شرمندگی کا باعث ہے جب پاکستان ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے قانون کی حکمرانی کے انڈکس میں مسلسل آخری نمبروں میں اپنی جگہ پا رہا ہے۔ اس کی حالیہ رپورٹ میں 126 ممالک میں پاکستان 117 ویں پوزیشن پر، زمبابوے سے نیچے اور افغانستان سے ذرا اوپر ہے۔

پولیس اسٹیشن میں لوگ امید اور آس لے کر جاتے ہیں لیکن جانے کے بعد ارمان آنسو میں بہہ جاتےہیں۔جب پولیس اسٹیشن میں آپ رپورٹ درج کرنے جاتےہیں تو پولیس کی جانب سے کہا جاتاہے ہمارے چائے پینے دے تو ہم آپ کی رپورٹ درج کرتےہیں۔

سابق رکن بلوچستان اسمبلی مجید اچکزئی نے سرعام پولیس سارجنٹ کوکچل کر فرار ہوگیا ۔بعد میں کیس عدالت میں زیرسماعت رہا تو عدالت کی جانب سے کہاگیا کہ ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملاہے ۔۔۔افسوس کہ سرعام اور سرِبازار کچل کر اور ویڈیو ثبوت ہونے کے باوجود عدالت کہے کہ ہمیں ثبوت نہیں ملا ہے تو ہم اس ملک کے عدلیہ سے کیا امید رکھیں۔

حال ہی میں ہماری عدالتوں نے شاید ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا جب سو سال پرانے مقدمے کا فیصلہ جنوری 2018 میں ہماری سپریم کورٹ نے سنایا۔ یہ مقدمہ مختلف مراحل سے گزرتا ہوا سپریم کورٹ میں 2005 میں پہنچا اور پھر اس معمولی زمین کے تنازعے پر انصاف مہیا کرنے میں سپریم کورٹ کو  تقریباً 13 سال لگے۔

پاکستان کا نظام انصاف تقریباً آخری سانسیں لے رہا ہے۔ عام عوام کا اب اس نظام پر کسی قسم کا اعتماد باقی نہیں رہا۔ اسی لیے دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ اپنے قانونی مسائل کے حل کے لیے سست اور مہنگے نظام انصاف کی بجائے متبادل راستوں کو تلاش کرتے ہیں جن میں بعض اوقات قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا بھی شامل ہوتا ہے۔

شاعر کیا خوب کہتا ہے کہ
"نظام انصاف و عدل پر یہ نہ جانے کیسا زوال آیا
برہنہ ہو کر سسک رہی ہیں صداقتیں سب”
(اسلم حنیف)

اپنا تبصرہ بھیجیں