بلوچ طلباء کاجرم ؟

عبدالقیوم
زندگی کے ہرلمحے کی ایک قیمت ہوتی ہے اگرچہ ہم اس لمحے کی قیمت ادانہیں کررہے ہیں ،حقیقت میں کچھ لمحے ہی زندگی کی سدھاربگاڑکا ذمہ دار ہیں ،کچھ لمحے ہی زندگی کوبدل سکتی ہے چاہے وہ بدلی بردبادی کی شکل میں ہو یا شادمانی کی شکل میں
اس لیے تو کہا جاتا ہے کہ لمحوں نےخطا کی صدیوں نےسزاپائی
نہ جانے!ہمارے بلوچ طلبا کس لمحے کی سزا کاٹ رہے ہیں؟ ، کس گناہ کی پاداش میں دربدر ہیں ؟ کیوں ان کی آنکھیں اداس لمحوں کاقافیہ ہیں ؟ کیوں ان کا چہرہ پرانےوقتوں کی شاعری کی مانند سوزمان ہے؟ کیوں ان کی بستی دنیا ویران ہے؟ کیوں ان کی مہرووفاسے بھری آنکھیں آنسوؤں کا دریا بن کر بہہ رہی ہیں ؟
کیوں ان سےحکومت بےرخی برت رہی ہے ؟
کیوں حکومت کو ان کی بےتاب آنکھوں میں عیاں اظہار دکھائی نہیں دے رہی ؟
کیا بلوچ طلبا کا سنتیس دنوں سےقائم احتجاجی کیمپ حکومت وقت کےلیے مذاق کےسوا کچھ نہیں ؟
کیا حکومت کی جانب سے برقرار بےحسی بلوچ طلبا کےپرامن طورپر حقوق مانگنے کی تحریک کوسبوتاژ کرنے کی کوشش تو نہیں ہے؟ یہ بھی سوچنے کی بات ہے
بہرحال!بلوچ طلبا ایک لمحے کی سزا توکاٹ ہی رہے ہیں مگروہ اس لمحے کی خطا سے ہوئےنقصانات کو کم کرنے کےلیے اپنی طرف سے بھرپور جدوجہد کررہے ہیں وہ دن رات،موسم کی شدت ،بھوک اور پیاس کا پروا کیے بغیر بی زیڈ یو کے مرکزی گیٹ کےسامنے احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ہوئے ہیں ان طلبا کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے طلبا کے لیے پرانی پالیسی کی پیروی کی جائے جس کے مطابق بلوچستان سےآئے ہوئے طلبا سے کسی قسم کی تعلیمی واقامتی فیس نہیں لیاجائے گا مگر بدقسمتی سےحکومت وقت کی بےحسی اور یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ افراد کی مہربانی سے فیس وصول کرنے کی پالیسی کےخلاف بلوچ طلبا بتیس دنوں سے احتجاج کررہے ہیں کیونکہ وہ بلوچستان کے معاشی ،تعلیمی اور معاشرتی پس منظر کوجانتے ہوئے ایسا کررہے ہیں وہ جانتے ہیں اور دنیا بھر کےلوگوں سے یہ ڈھکی چھپی بات تو ہے نہیں کہ بلوچستان ایشیا کاسب سےغریب ترین خطہ ہے جہاں کے طلبا پنجاب کے جامعات کے ہوش ربا اخراجات ادا کرنے سے قاصرہیں جس کی وجہ سے بہت سے طلبا پڑھائی سے دستبردار ہوں گے جس سے تعلیمی میدان میں تو نقصان ہونے کااحتمال ہوتاہی ہے مگر یہ ملک کی مجموعی ترقی اور معاشرتی ڈھانچے پراثرانداز ہونے کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہے اور بین الصوبائی ہم آہنگی پر بھی شب خون مارنے کے متراداف ہے
البتہ وہ طلبا ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کےقبائلی علاقوں کے مخصوص نشستوں پر سکالرشپ کا مطالبہ کررہے ہیں
اور وہ مطالبہ کررہے ہیں کہ یونیورسٹی کے ہرشعبے میں قبائلی طلبا کے لیے کوٹا رکھاجائے تاکہ قبائلی طلبا پڑھ لکھ کراپنے علاقہ و قوم کی خدمت کرسکیں
کیونکہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کا یہ قبائلی علاقہ بہت ہی پسماندہ ہےاور یہاں کاتعلیمی نظام نہایت ہی فرسودہ بنیادوں پرقائم ہے اور زیادہ تر لوگ غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں
جس کی وجہ سے طلبا مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کے مسائل کو وزیراعلی پنجاب سنے مگر وہ تواپنے علاقے کے طلبا کی آواز کوسننا ہی گواراہ نہیں کررہے
کیونکہ یہ جوالم گزررہے ہیں ،یہ جو میرے شہر جل رہے ہیں ، ان کے پیچھے کوئی اور نہیں ہمارے اپنے ہیں
جنہوں نے ہماری آواز نہ سننے کی قسم کھائی ہوئی ہے اگر چہ وزیراعلی بلوچستان جناب جام کمال نے کاروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے مگرابھی تک توکوئی کام نہیں ہوا ہے ؟
البتہ ہمیں یہ توبتائیں وہ کاروائی کہاں ہورہی ہے زمین پر یاآسمان پر اور وزیراعلی عثمان بھی ”بڑے میاں بڑے میاں چھوٹے میاں بھی سبحان اللہ“ کےمانند ہے
وزیراعلی پنجاب نے تو کسی قسم کا ایکشن لینا گواراہ ہی نہیں کیا ؟ کیا یہ ایکشن لینا بھی وزیراعظم عمران خان کی صوابدید پہ ہے؟
اگر کسی کی صوابدید پہ آپ نے کا م کرنا ہے تویاد رکھیں
کرسی ہے یہ تمہارا جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کرنہیں سکتے تواتر کیوں نہیں جاتے
آپ کے ڈیرہ غازی خان سے طلبا احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن تمہیں وہ نظرنہیں آتے ؟ آخرکیوں
اور جام کمال صاحب !!
آپ نےاچھا کیا،طلبا کےمسئلے پر گورنر پنجاب سے بات کی اور بلوچستان ہائیرایجوکیشن سے بات کی ہے مگر آپ کی یہ باتیں صرف ہمارے لیے لولی پاپ کی حثیت رکھتی ہیں جن کی کوئی وقعت نہیں کیونکہ آپ نے پہلے بھی وعدے کیے لیکن وہ ایفا نہیں کیے کیونکہ آپ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی داڑھی مبارک کی ظاہری سنت کوتواپنا لیا لیکن ان کےوعدہ پورا کرنے کی سنت سے ناواقف ہیں ،ذرا!یہ سنت بھی اپنا لیں تاکہ ہمارامسئلہ حل ہو
اگرآپ نہیں حل کرتے تو ہمارا آئندہ کا لائحہ عمل سخت ہوگا ،ہمارے سامنے اپنی بات منوانے کےلیے بہت سےآپشنز ہیں ہم اپنے مقصدکےحصول کےلیے بھوک ہڑتال بھی کریں گے اور لانگ مارچ بھی
کیاآپ چاہتے ہیں کہ ہم انتہائی قدم اٹھائیں ہماراوقت ضائع ہو تو جی بسمہ اللہ
ہم محاذپہ ڈٹےرہیں گے اوراپنے مطالبات کے پورا ہونے تک احتجاج جاری رکھیں گے
اورہم جب بگڑگئے توٹھیک کرنا بھی ہمیں آتاہے
کیونکہ
بقول شاعر
کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا​
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا​
وہ دن گئے جب کہ ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے​
اٹھی جو اب ہم پہ اینٹ کوئی تو اس کا پتھر جواب ہو گا
سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں​
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ہو گا​
سکوتِ صحرا میں بسنے والو، ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو​
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہو گا​
نہیں کہ یہ صرف شاعری ہے، غزل میں تاریخِ بے حسی ہے​
جو آج شعروں میں کہہ دیا ہے، وہ کل شریکِ نصاب ہو گا​
(مرتضی برلاس صاحب اس غزل کےتخلیق کارہیں)

اپنا تبصرہ بھیجیں