بلوچستان کا ساحل غیرقانونی ٹرالنگ کی زد میں

تحریر : ہزاران رحیم داد
مکران کے ساحلی پٹی کی لمبائی لگ بھگ 750 کلومیٹر ہے۔ مکران کی آبادی گوادر ، جیونی ، اورماڑہ ، پسنی اور کچھ دوسرے ساحلی علاقوں پر مشتمل ہے۔
مکران کے ساحلی علاقوں کے لوگوں کا زریعہ معاش ماہی گیری ہے اور نیلا سمندر ہی اُنکا وسیلہ رزق ہے۔ اُنکی معاش کا دارومدار سمندر اور ماہی گیری سے وابستہ ہے ۔
پسنی صوبہ بلوچستان کا ساحلی شہر ہے ، جو ضلع گوادر میں مکران کے ساحل پر واقع ہے۔ سرکاری ریکارڈ میں پسنی کی آبادی تقریبا ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے لیکن غیرسرکاری اعداد وشمار کے مطابق اسکی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے بھی اوپر ہے پسنی کے نوے فیصد لوگوں کا زریعہ معاش ماہی گیری ہے اور ماہی گیری ہی اُنکی آمدن کا سب سے بڑا زریعہ ہے ۔
بلوچستان کے تمام ساحلی علاقوں میں روزگار کا دارومدار سمندر سے ہے لیکن گزشتہ چندسالوں سے مکران کے ساحلی علاقوں کے ماہی گیروں کو انکی روزگار سے دور کیا جارہا ہے اور اُنہیں نان شبینہ کا محتاج بنا دیا گیا ہےاورمکران کے ساحلی علاقوں کے نوے فیصد لوگوں کی زریعہ معاش کو غیرقانونی ٹرالنگ کے زریعے متاثر کردیاگیاہے ۔
مکران کے ساحلی علاقوں کے ماہی گیروں کے پاس اکثر چھوٹی کشتیاں ہوتی ہیں جن کے زریعے وہ شکار کے لیئے گہرے سمندر میں چلے جاتے ہیں مکران کے ساحلی علاقوں کے ماہی گیروں نے ہمیشہ سے اپنی سمندر کی حفاظت کی ہے اور چھوٹی نسل کے مچھلیوں کی شکار سے گریز کیا ہے کیونکہ یہاں کے ماہی گیر شروع سے ہی شکار کے لیئے بڑے سوراخ والے جالوں کا استعمال کرتے ہیں تاکہ اُن کے اندر چھوٹی مچھلیاں با آسانی سے نکل سکیں اور یہاں کے ماہی گیروں نے وہ جال کھبی بھی استعمال نہیں کیئے جن سے سمندری حیات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔
لیکن سندھ سے آئے ہوئے ٹرالر اور گجہ نیٹ مکران کے ساحل اور سمندر کو غیرقانونی ٹرالنگ کے زریعے تباہ کررہے ہیں کیونکہ مچھلیوں کی شکار کے لیئے وہ ایک ایسی جال کا استعمال کرتے ہیں جنکے سوراخ انتہائی باریک ہیں اور وہاں وہ مچھلیاں بھی جاکر پھنستی ہیں جنکی عمریں بامشکل دو یا تین دن ہوتی ہے اس غیرقانونی ٹرالنگ کی وجہ سے مکران کا سمندر روز بروز تباہ ہورہاہے اور مچھلیوں کی افزائش نسل پر بھی بُرے اثرات مرتب ہورہی ہے اور یہ سلسلہ اگر مذید چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں کہ پورے پاکستان میں کھانے کی مچھلیاں ناپید ہوجائے گی کیونکہ پاکستان کے مختلف شہروں میں زیادہ تر مچھلیاں مکران سے ہی جاتی ہیں ۔
غیرقانونی ٹرالنگ کے حوالے سے پسنی کے ایک مقامی ماہی گیر دوست محمد کا کہنا ہے کہ "مکران کا ساحل بہت امیر ہے ، اور اس میں مچھلی کی کثیر مقدار پیدا ہوتی ہے لیکن اب یہ ٹرالر مکران کے ساحل کی اس سمندری زندگی کو بے دردی سے شکار کرکے اسے ناپید بنارہی ہیں ۔
پسنی کے ایک اور ماہی گیر عبد الحق کا کہنا ہے کہ "سندھ سے آنے والے ٹرالر ہمارے سمندر میں غیرقانونی طور پر گھس کر شکار کر تے ہیں ، اور ہزاروں کی تعداد میں مچھلیاں غیر قانونی طور پر پکڑتے ہیں اور یہ ٹرالر مچھلیوں کی نسل کشی میں ملوث ہیں ۔
پسنی میں مچھلی کے ایک مقامی بیوپاری کہدہ رشید نے انتہائی تشویش کے ساتھ بتایا کہ "سندھ سے آنے والے ٹرالروں نے پہلے سندھ کے سمندر کو تباہ کردیا اور سندھ کے سمندر میں مچھلیاں ناپید ہوچکی ہیں اب یہ ٹرالر یہاں آکر ہمارے سمندر کو تباہ کررہے ہیں انہوں نے بتایا کہ غیرقانونی ٹرالنگ اگر اسی طرح جاری رہی تو آئندہ دوسالوں میں مکران کے سمندر میں مچھلیوں کی قلت پیدا ہوجائے گی جس سے فش کمپنیاں بند ہوجائینگی اور ہزاروں لوگ بے روزگار ہوجائینگے انہوں نے مذید بتایا کہ "غیر قانونی ٹرالروں کی آمد سے پہلے ، ہمارے پاس سفید اور سیاہ پاپلیٹ اور جھینگے بڑی مقدار میں پائے جاتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے اور اس سال زیادہ ٹرالنگ ہونے کی وجہ سے بیوپاری خسارے میں چلے گئے ہیں ۔
کیونکہ شکار کے لیئے ہم اپنے لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں نئی جالیں خریدتے ہیں اپنی کشتیوں اور اس میں کام کرنے والے مچھیروں پر لاکھوں روپے کا خرچہ ہوجاتاہے لیکن شکارکے لیئے جانے والی کشتیاں عموما بغیر شکار کیئے واپس لوٹ آتی ہیں ۔غیرقانونی ٹرالنگ کی وجہ سےزیادہ تر لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں ۔
اس سلسلے میں مچھلی کے ایک اورمقامی بیوپاری کیپٹن رحیم داد نے بتایا کہ
” پسنی کے بہت سے مقامی ماہی گیر اور چھوٹے چھوٹے سوداگر جو اپنی مچھلیاں مقامی اور کراچی کے فش کمپنیوں کو دیتے تھے اب وہ نقصان میں جارہے ہیں کیونکہ سمندر سے مچھلیاں کم مقدارمیں آرہی ہیں اور چھوٹے سوداگر مقروض ہوچکے ہیں ،غیرقانونی ٹرالنگ نے پورے خطے کو متاثر کردیا ہے ۔
تاہم دوسری جانب بالا حکام اس معاملے پر خاموش ہیں۔ مقامی ماہی گیر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور آئے روزاحتجاج کررہے ہیں لیکن کوئی بھی سرکاری حکام اُنکی فریادوں پر توجہ نہیں دے رہا۔
ماہی گیرمحکمہ فشریز بلوچستان سے بھی مطالبہ کرچکے ہیں کہ وہ غیرقانونی ٹرالنگ کو روکے غیرقانونی ٹرالنگ سے مکران کے ساحل کنارے رہنے والے لوگوں کی زندگیاں شدید متاثر ہورہی ہیں ۔
اب یہ حکومت کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان کے ماہی گیروں کے روزگار کو تحفظ دینے کے لیئے عملی اقدامات اٹھائے ۔ بصورت دیگر غیرقانونی ٹرالنگ کی وجہ سے پورا پاکستان مچھلی سے محروم ہوسکتا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں