عورت انسان ہے

تحریر: زین گل بلوچ
عورت غیرت اور عزت کی مینار نہیں بلکہ انسان ہے یہ بات اس سماج میں کیسے لوگوں کو سمجھائی جائے۔مردوں کی سامراجیت عورتوں پر اتنی گہری اور قدیم ہے کہ عورت خود ہی اپنی زات کو مرد کی میراث سمجھتی ہے۔

عورت کو محکوم بنانے میں کسی حد تک عورت کا اپنا حصہ شامل ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ معاشرے میں ایک ایسی سوچ اپنی جڑوں کو مضبوط کر چکی ہے جس کے تحت عورت مرد کی ہر صورت تابعدار ہے۔اس سوچ کو ختم کرنے کے لیے ایک عمر درکار ہے۔

ہزاروں سال پہلے ارسطو نے انسان کو معاشرتی حیوان قرار دیا وہ اکیلے تناہ نہیں رہ سکتا۔ اس کے لیے قدرت کے بنائے ہوئے رشتے، آپسی تعلقات، یہاں تک کہ جدید دور نے یہ بھی ثابت کر دیا ریاستیں بھی تناہ نہیں رہ سکتی ہیں۔

ارسطو نے انسانوں کا زکر کیا ان انسانوں میں عورت بھی شامل ہے اور وہ بھی معاشرتی حیوان ہے اُن کے لیے بھی معاشرا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ایک مرد کے لیے۔ عورت نہ تو معاشرے سے الگ تلگ ہوسکتی ہے نہ ہی وہ خود کو قدرت کے بنائے ہوے رشتوں سے محروم رکھ سکتی ہے۔ عورت بیٹی کے روپ میں باپ کی محبت اور شفقت بھی حاصل کرنا چاہتی ہے اور عورت ماں بھی بننا چاہتی ہے اولاد کی محبت میں راتوں کو جاگنا بھی اس کی ممتا کا حصہ ہے بلکہ خداوند نے عورت کو ایسی محبت بھری شخصیت سے نوازا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی طرح کسی دوسرے کے بچے کے لیے بھی شفقت رکھتی ہے۔ سوتیلی ماں کا روپ بھی دھار لیتی ہے اگر عورت کے لیے بھی تعلم اور شعور رکھ دی جائے تو یہ سوتیلی ماں کا کردار اصل ماں بھی بن سکتی ہے۔ عورت انسان ہے بلکل ایک مرد کی طرح نیکی اور بدی دونوں کرداروں میں پائی جا سکتی ہے۔

تعلیم اور شعور تمام زہینی برائیوں کو ختم کرنے کا بہترین زریعہ ہے مرد عورت دونوں کے لیے۔ ایک معیاری اور منصفانہ تعلیمی نظام مرد اور عورت میں نہ صرف مساوات پیدا کر سکتا ہے بلکہ ایک دوسرے کی اہمیت اور احترام کو بھی جنم دیتا ہے۔ مگر پاکستان میں بنیادی تعلیم یعنی اسکول ہی الگ الگ رکھنے سے عورت کی عزت مزید مجرو ح ہو گئی ہے وہی بچے جو گلی کوچوں میں اپنا بچپن کھیل کھود میں ساتھ گزارتے ہیں ہیں جنہیں جینڈر ڈفرنس کی کوئی پہچان نہیں ہوتی معاشرہ انہیں الگ الگ اسکولوں میں بھیج کر ایک دوسرے کا طلب گار بنا دیتا ہے اس دوران ان کے درمیان صنفی امتیاز کیا جاتا ہے یعنی انہیں جتنا دور رکھا جائے گا ان کے درمیان فرق پیدا ہوگا جو معاشرہ مرد کے لیے عورت کو اسکی غیرت بنا دیتا ہے اسے مخصوص بنا دیتا ہے ایسی لیے جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو وہ صرف ایک ہی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔

ان باتوں سے اختلاف کرنا ہر فرد کا حق ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ریپ کے واقعات عورتوں اور بچوں کے ساتھ پاکستان میں جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں اس کی تین اہم وجوہات بظاہر نظر آتی ہیں
ریپ کے واقعات ملوث ملزم کی عدم ادائیگی سامنے آتی ہے نہ ہی کوئی سزا اور نہ ہی قوانین پر کوئی اثر عمل سامنے آرہا ہے
دوسرا ہمارا تعلیمی نظام جس میں صنفی امتیاز کو فروغ مل رہا ہے جو کہ عورت کو غیرت کا سمبل بنا رہی ہے۔
تیسری ایک اہم وجہ کہ ہمارے گھر اور ریاست اپنے شہریوں کو تربیت دینے میں مسلسل ناکام ہیں (ریاستی تربیت شہریوں کو اسکول اور اداروں سے ملتی ہے)۔

عورت کو انسان کا درجہ دینے کے لیے گھر اور ریاستی پالیسی میکرز کو اس حوالے سے ڈیپ تنکنگ کی ضرورت ہے نصاب میں تبدیلی سے لے کر ملکی قوانین میں عورتوں اور بچوں کے تحفظات کے لیے نہ صرف ترامیم کی ضرورت ہے بلکہ عملی طور پر ان قوانین پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ بلوچستان میں جنسی ہراسگی بل ہونے کے باوجود بلوچستان یونیورسٹی کا بدترین اسکینڈل سامنے آیا اور نہ ہی سابقہ وی سی پر کوئی قانونی کاروائی ہوئی بلکہ انہیں پنجاب کی یونیورسٹی میں ملازمت سے نوازا گیا تاکہ یہ عمل وہاں پر بھی ہوتا رہے اس کا مطلب یہی ہے کہ قوانین پر کوئی عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
عورت ایک انسان ہے وہ آزاد ہونا چاہتی ہےاپنے فیصلے اپنی خواہشوں اپنے پسند نا پسند پر خود دسترس حاصل کرنا چاہتی ہے اور یہی سوچ وہ ایک مظلوم مرد کے لیے بھی رکھتی ہے برابری آزادی ، خودمختاری ہر انسان کا حق ہے چاہیے مرد ہو یا عورت۔

عورت کو نہ مذہب نے قید کیا ہے اور نہ ریاست کے قانون نے مگر اس کے باوجود وہ مرد کی جاگیر ہے۔ اگر ایسا نہیں تو وہ شاہینہ شاہین کی طرح غیرت کے نام قتل کیوں ہوتی ہے وہ گھریلو جسمانی اور زمینی تشدد کا شکار کیوں ہوتی ہے ایک بچی یا بچے کے ننے جسم کو اپنی حوس کا شکار کیوں بنایا جارہاہے۔ کیا اس بات کا اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ننے سے بدن پر یہ حیوانیت جیسا ظلم ہوتا ہے تو وہ بچی یا بچہ کتنی تکلیف سے گزررہا ہوتا ہے آخر یہ معاشرہ کس سمت جارہا ہے کیا اسے روکنے کے لیے اب بھی سنجیدگی کی ضرورت نہیں؟

اپنا تبصرہ بھیجیں