بلوچستان کے عوام کیساتھ نادرا کا رویہ۔۔۔۔؟

تحریر۔۔ہاشم خان
بلوچستان کے عوام کے ساتھ وفاقی اداروں کی جانب سے ہونیوالی زیادتیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ چاہے وہ وفاقی اداروں میں ملازمتوں کی صورت میں ہورہی ہوں یا وفاق کی جانب سے فراہم کی جانیوالی سکالرشپ کی صورت میں ہوں گزشتہ روز رکن بلوچستان اسمبلی ثناء بلوچ صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بلوچستان میں تقریبا 2700سکول ایسے ہیں جوکہ بالکل بند پڑھے ہیں اور صوبے کے 50فیصد سکولوں میں اساتذہ کی شدید کمی ہے۔
بلوچستان کیساتھ وفاق کی جانب سے ہونیوالی زیادتیاں بلوچستان کے تمام عوام کے زبان پر عام ہے لیکن ہر دور میں برسراقتدار آنیوالے حکمران صرف اپنی ذاتی مفادات کی خاطر عوام کو سبز باغ دکھا کر عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرکے چلے جاتے ہیں۔ جہاں نا اہل حکمران اور بے درد وفاقی ادارے بلوچستان کو بے ددری سے لوٹ رہے ہیں وہی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) بھی بلوچستان کے عوام کیساتھ زیادتیوں پر اُتر آئیں ہیں۔
نادرا حکام کی جانب سے صوبہ بلوچستان کے بلوچ و پشتون قبائل کے شناختی کارڈ کا بلاک کیا جانا عام سے بات ہوگئی ہیں آئے روز قبائلی عوام کا شناختی کارڈ بلا کسی عذر و اعتراض کے بلاک کرنا نادرا حکام کا وطیرہ بن چکا ہے جسکا مطلب بلوچستان کے عوام کو حق رائے دہی استعمال کرنے سے بھی معذور کرنا ہے۔ صوبہ کا کوئی بھی پشتون یا بلوچ باسی اگر شناختی کارڈ کے حصول کیلئے نادرا کے پاس جاتا ہے تو اُس کو فارم کیساتھ ہی بلاک شناختی کارڈ کا فارم تھما دیتے ہیں اور نادرا حکام کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ جاکے اپنی شہریت 2عدد17گریڈ کے آفیسران سے تصدیق کرواؤ اور پھر اس کے بعد سٹامپ پیپر پر تحریراً اپنی شہریت کی تصدیق کرواکر لے کر آؤ اور اس کے بعد 2محلے دار گواہوں کی تصدیق کرواکر لاو اس کے بعد ایک کمیٹی بیٹھتی ہے جسے بلاک کمیٹی کہا جاتا ہے جس میں پورے ضلع کے لوگ اپنی درخواستیں اٹھائے سالوں سال چکر کاٹتے پرتے ہیں اس دوران تو کئیں افراد کی درخواستیں گُما دی جاتی ہیں اور انہیں دوبارہ کہا جاتا ہے کہ جاکے دوبارہ سے پورا پروسیس کرکے درخواست واپس ہمیں جمع کرواؤ۔
اس کے علاوہ نادرا حکام نے اپنے کئیں ایجنٹ پالے رکھے ہیں جنہیں ایک مخصوص کام سونپھا گیا ہے۔ نادرا حکام باقاعدہ بھاری رقم وصول کرکے لا شعور عوام کا ڈیٹا نکال کر اُنکے خاندان میں کسی مہاجر کا شناختی کارڈ بنادیتے ہیں اور اس کے بعد مہاجرین کا خاندان بحال رہتا ہے جبکہ جنکے خاندان میں انہوں نے انٹروڈرز کو ڈالا ہے اُن سے کہتے ہیں کہ جاؤ تمہارے خاندان میں موجود افراد کو نکال لو اور تب تک اُن کا شناختی کارڈ بھی بلاک کردیا جاتا ہے اب اس میں ایجنٹ کا کام ہوتا ہے کہ وہ اُس شخص کا پیچھا کرے کیونکہ ایجنٹ اور نادرا حکام تو آپس میں رضا مند ہے جب تک ایجنٹ کو پیسے نہیں ملتے تب تک صارف کا شناختی کارڈ کا بلاک ختم نہیں ہوتا تو درخواست گزار یا تو کسی بڑی سفارش کی اپروچ کرتا ہے یا تو مجبوراً مذکورہ ایجنٹ کے پاس جانا پڑھتا ہے اور ایجنٹ کے ذریعے بھی نادرا حکام بھاری بھرکم رقم وصول کرکے سالوں تک خوار ہونیوالے صارف کا شناختی کارڈ کچھ ہی ہفتوں یا مہینوں میں بحال کرکے دے دیتا ہے۔ کچھ صارفین تو ایسے بھی ہیں جن کو 10سال قبل تو نادرا حکام نے شناختی کارڈ جاری کردیا تھا لیکن اب صارف کو شناختی کارڈ کے تجدید کے موقع پر دوبارہ شہریت کی تصدیق کا عذر پیش کرکے اُن کا شناختی کارڈ بلاک کردیا جاتا ہے۔
کچھ ہی عرصہ قبل کی بات ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جمعیت علماء اسلام کے رہنماء مولانا حافظ حمداللہ جوکہ رکن بلوچستان اسمبلی اور سینٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں جنہوں نے اپنے شناختی کارڈ کی تجدید کیلئے نادرا کے پاس درخواست گزاری تھی۔ نااہل نادرا حکام کی جانب سے حافظ حمداللہ کا شناختی کارڈ بھی بلاک کردیا گیا تھا جس کی شہریت کی تصدیق وفاقی، صوبائی اور دفاعی اداروں نے بھی کی تھی لیکن اس کے باوجود انا پرستی اور بغض کی وجہ سے نادرا حکام نے حافظ حمداللہ کا شناختی کارڈ بلاک کرکے بلوچستان دشمنی کا ثبوت دیدیا تھا جس پر حافظ حمداللہ نے سپریم کورٹ کا دروازہ کٹھکٹھایا اور انصاف طلب کی جس کے بعد نادرا حکام کی کافی سرزنش بھی کی گئی لیکن شاید عدالت عالیہ کی سرزنش بھی نادرا حکام کو بلوچستان دشمنی روکنے کیلئے کافی نہیں تھا۔
حال ہی میں ضلعی کچہری میں موجود ایک شخص جسکا خاندان صرف 2افراد پر مشتمل تھا یعنی ایک بھائی اور ایک بہن والدین کا انتقال ہوچکا تھا جنکے ثبوت موصوف کے پاس موجود تھے۔ مذکوہ شخص کے خاندان میں نادرا حکام نے 8افراد کو ڈھالا تھا اور اُن 2بھائی بہن کو بذریعہ انٹروڈرز ریکارڈ سے نکال باہر کیا تھا درخواست گزار سال 2009سے نادرا کے چکر کاٹ رہا تھا اور سال 2020تک اُنکا ریکارڈ بحال نہیں ہوا تھا، پریشان حال شخص رو رو کر نادرا حکام کو دہایاں دے رہا تھا۔
اس حل طلب مسئلے پر بلوچستان کے مخلوط حکومت میں شامل پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کے اراکین نے وفاق میں معاملہ کو اٹھایا تو تھا لیکن اس مسئلہ کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے اور معاملہ پر مجرمانہ چُھپ سادھ لی گئی ہے۔ اب تک بلوچستان کے عوام دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور شہریت کی تصدیق کیلئے سالوں سے گھر بار کاروبار چھوڑے نادرا کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں۔
بلوچستان کے علاوہ نادرا حکام پنجاب،سندھ،خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان میں کہیں بھی مذکورہ بالا اقسام کی پریشانیاں حائل نہیں کی جاتی۔نادرا حکام باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت بلوچستان کے عوام کی مشکلات کے دہلدل میں دھکیل رہی ہیں تاکہ بلوچستان کے عوام کی ترقی کی شرح رُک سکے اب تک لاکھوں لوگوں کے شناختی کارڈز بلاک ہیں اور وہ دربدر کی ٹھوکریں اور دھکے کھاکر لائنوں میں لگ کر اپنی شہریت کی تصدیق کیلئے خوار ہورہے ہیں۔ گویا لگتا ہے جیسے نادرا حکام بلوچستان کے عوام کو انسان ہی نہیں سمجھتے ہوں، صوبہ کے عوام کیلئے کوئی قانون موجود نہیں اور نہ ہی انصاف کی فراہمی کیلئے کوئی آواز موجود ہے۔ حکمران بس آپس کی بندربانٹ اور اسمبلیوں میں شور شرابہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں صرف الیکشن کے وقت اپنی شکل دکھا کر ووٹ بٹور کر واپس غائب ہوجاتے ہیں۔
عوام حکمرانوں کو اس لئے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں تاکہ اُن کے مسائل کو حل کروایا جائے۔وزیر اعظم پاکستان، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی، سینٹ اور قومی اسمبلی میں موجود بلوچستان کے نمائندگان کو اس مسئلہ کے مستقل حل کیلئے اقدامات اٹھانے چاہئے اور نادرا دیگر صوبوں کہ طرح ایک ہی قانون کے تحت شناختی کارڈ کے حصول کیلئے آنیوالے عوام کو سہولیات میسر کرے عوام میں شناختی کارڈ کے حصول کو آسان بنانے کیلئے صوبہ بھر میں شعوری پروگرامز کا انعقاد کروانے چاہئے اور ان کے شناختی کارڈ کے اجراء کو آسانی اور یقینی بنانے کیلئے تمام ممکنہ کارروائیاں عمل میں لائی جائیں تاکہ بلوچستان کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں