بلوچ سیاست اور بلوچستان۔۔۔۔

ارشادعالم
دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال اور بلوچستان کی سیاسی۔ معاشی۔ معاشرتی حالات کا تجزیہ جب ہوتا ہے تو مایوسی کے سواکچھ حاصل نہ ہو گا کیونکہ بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جسے کوئی نظرانداز نہیں کر سکتا یمیشہ ملکی و بین الاقوامی نظروں میں رہا ہے روز بروز اس کی ایمیت و ضرورت بڑھتی جا رہی یے لیکن بلوچ بحیٹیت قوم اور صوبے کے والی و وارث کس طرح زندگی بسر کر رہے ہیں سونا۔چاندی طویل سمندر کے مالک یہاں کے بودو باش رکھنے والے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں پینے کے پانی سے لیکر علاج و معالجہ تعلیم سڑک اور دیگر سہولتوں سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ پاکستانی حکمران یہ اعتراف خود ہمیشہ کرتے آ رہے ہیں کہ بلوچستان پر ظلم ہوا ہے ہم اس کی تلافی کریں گے۔ حقوق دیں گے ایوب خان ضیاالحق جنرل پرویز مشرف آصف زرداری سب نے اعتراف کیے لیکن انہی کے دور اقتدار میں فوجی آپریشن ہوئے۔ سیاسی رہنما جیلوں میں گئے۔حقوق کے لئے بولنے والوں کے لئے سرزمین تنگ کیا گیا مشرف کے دور میں بزرگ سیاستدان نواب بگٹی کے گھر پر حملہ اسوقت کیا گیا کہ انہوں نے شازیہ خالد کی کیس پر بھرپور مزاحمت کا رویہ اپنایا اور کیپٹن حماد کے خلاف کھل کر بات کی نواب کی شہادت کے بعد بلوچستان میں نفرت کی لہر اٹھی۔۔۔ایک ایسی مکتبہ فکر نے جنم لیا جن کے نزدیک پارلیمانی سیاست گناہ عظیم کے برابر رہا مایوسی کی کیفیت اور حکومت کی بلوچستان پر عدم توجہ۔ سیاسی مسلہ کو نہ سمجھنا اور اہمیت نہ دینا۔ آوازوں کو دبانا۔ مسخ شدہ لاشیں پھنکننا۔ لاپتہ کرنا یہ ایسے عوامل ہیں کہ پاکستانی مقتدرہ نے خود ایسے حالات پیدا کئے۔ اب بلوچستان کی صورتحال یہی ہے کہ حالات روز بروز پیچیدہ اور گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں بلوچ سیاسی جماعتیں آپس میں کسی بھی نقطے پر ایک پیج پر نہیں ہیں سیاسی جماعتوں کی آپس میں نااتفاقی۔انتشار اور مختلف نظریہ و سوچ نے بلوچستان اور بلوچ قوم کو بہت نقصان دیا ہے سیاسی انا پرستی عدم برداشت کی سیاست نے بلوچوں کو لے ڈوبا ہے۔ یم ایک ایسے خطے میں رہ رہے ہیں جن کی ایمیت۔ جغرافیائی حیٹت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا دنیا کی للچائی نظریں یہاں لگی ہوئی ہیں۔۔۔

شاید دنیا کے کسی بھی قوم کو سیاسی معاشی علمی میدان میں آگے بڑھنے کی اتنی ضرورت نہ ہو لیکن بلوچ کو اپنی شناخت۔ وسائل اور زمین کو بچانے کے لئے کچھ زیادہ سیاسی معاشی علمی فہم و فراست کی ضرورت ہو گا۔ سیاسی اچیومنٹ حاصل کرنے کے لئے متحد ہونا ضروری ہے سیاسی نشیب و فراز کو سمجھنا ضروری ہے اختالافات بھلا دینا ضروری ہے سیاسی غلطیوں کو مان لینا اور ان کی اصلاح کرنا ماضی سے سبق حاصل کرنا بھی ضروری ہے بلوچ سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما سیاسی غلطیوں کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی کوئی تنقید برداشت کر سکتا ہے۔
وقت وحالات کا تقاضا یہی ہے کہ بلوچستان کی وہ سیاسی جماعتیں جو قوم پرست ہیں۔ چاھتے ہیں کہ بلوچ قوم کی شناخت اور قومی وجود زندہ رہے اپنے وسائل سے استفادہ حاصل کریں تو ضروری ہے کہ آپس میں اتحاد و انضمام کی جانب بڑھیں بلکہ تمام بلوچ سیاسی جماعتیں جن میں پارلیمانی و غیر پارلیمانی گرینڈ جرگہ منعقد کر کے سیاسی نشیب و فراز کا مطالعہ کریں خصوصا پارلیمانی پارٹیاں جن میں کم از کم این پی بی این پی۔ جمہوری وطن پارٹی۔ متحد ہو کر بلوچستان کی آواز بن جائیں اگر ان حالات میں بلوچ سیاسی جماعتیں منظم و متحد نہ ہوئے تو ہو سکتا ہیکہ بلوچ بحٹیت قوم بہت سے مصائب و مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے

ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ کو ہر حوالے سے خود کو تیار کرنا ہو گا سیاسی علمی معاشی میدان میں اترنا ہو گا لیکن جوش سے نہیں ہوش سے۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں