ہماری پسماندگی کا ذمہ دار کون؟

تحریر۔عندلیب گچکی
تعلیمی پسماندگی ہو یاکہ صحت کے حوالے سے، روڈ سے لیکر تعلیمی اداروں کی خستہ اور زبوں حالی، کافی عرصہ ہوا ہے کہ پورے تحصیل تمپ کی واحد ہائیر تعلیمی ادارہ کالج، چاردیواری سے محروم ہے، یہ یاد بھی ہو کہ یہاں لڑکوں کے علاوہ لڑکیاں بھی زیر تعلیم ہیں اور اتنے بڑے ادارے کو یوں کھلا چھوڑنا اس دور میں بہت بڑے خطرے کا رسک لینے کے مترادف ہے، کئی سال ہوئے کالج کے کچھ اطراف میں چاردیواری کے نام پہ کچھ اینٹیں کھڑی تو کی گئی ہیں جہاں با آسانی ایک چھوٹا بچہ بھی دیوار پھلانگ سکتا ہے۔ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ کروڑوں کے ٹھیکے ہڑپ کرنے کے بعد بھی یہ نیب کی نظر میں کیوں نہیں آتے؟ ایک سال کے کم عرصے پہ بنی تمپ سٹی میں سڑک کے نشان کیوں مٹ چکی ہیں کیا سڑکیں صرف ایک ہفتہ کے لیے بنائی جاتی ہیں؟ٹھیکیدار کی بنائی ہوئی سڑک کی نشانیں تو مٹ چکی ہیں لیکن ہاں جو پہاڑ جیسے بڑے اور نوکیلے اسپیڈ بریکر ہر تین سے چار قدم پہ بنائی گئی ہیں ہمارے لیے سردرد کا باعث ضرور بنی ہیں۔کیا تمپ کی پسماندگی کو دور کرنے اور یہاں اداروں کو صحیح سمت دیناریاست کی ذمہ داری نہیں ہے۔آج تمپ کو پسماندہ بنانے میں کس کا ہاتھ تھا،ہم وہی پرانے زمانے کی دنیا میں زندگیاں گزار رہے ہیں کہ وہاں پر ترقیاتی کام کو سوچ میں نہ رکھیں۔تمپ کا خود ایک تاریخی پس منظر ہے مگر تمپ کو ہر طرف پیچھے دھکیلنے پر حکومت تلی ہوئی ہے آج جب بھی ہم تمپ کی ترقی کے بارے میں بات کرتے ہیں مگر ہم کو کچھ ترقیاتی سہولتیں نہیں مل رہے ہیں،تمپ کی تمام سرکاری کام من پسند افراد کو دے کر کرپشن کرنے کی پالیسی جاری ہے مگر تمپ کی تمام سرکاری دفاتر تربت میں بیٹھ کر آرام کی زندگیاں گزار رہے ہیں،عوام کو معمولی دستخط کیلئے مذکورہ آفیسران کے پیچھے 100 کلو میٹر تربت جانا پڑتا ہے۔ہم مطالبہ اور پرنٹ،الیکٹرک میڈیا میں مطالبہ کرنے سے تک گئے ہیں مگر ان مذکورہ سرکاری دفاتر کو تمپ آنے کیلئے آہنی دیواریں رکاوٹ بن گئی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں