صوباٸی حکومت معذوروں کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانے میں ناکام

تحریر شہباز بلوچ
پولیو سمیت مختلف پیداٸیشی اور پیداٸش کے بعد امراض کا شکار ہوکر چلنے بولنے سننے یا دیکھنے سے کٸی افراد معذور ہوجاتے ہیں اسکے علاوہ مختلف حادثات میں بھی سالانہ سیکڑوں افراد اپنے جسم کے مختلف اعضا سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بلاشبہ جو احساس محرومی کسی حادثے میں اپنا ہاتھ پاٶں گنوانے والے شخص کو لاحق ہوتا ہے وہ احساس محرومی بچپن میں یا ماں کے پیٹ سے نکلتے ہی کسی معذوری کا شکار ہونے والے فرد کو نہیں ہوتا ،،
ان افراد کو خصوصی افراد بھی کہا جاتا ہے آپ اگرکسی خصوصی بچے یا شخص کے ساتھ بیٹھیں تو اسکی زہانت اسکے مشاہدہ کرنے کی صلاحیت کا غور سے جاٸزہ لیں تو یہ خصوصی افراد آپ کو نارمل افراد کی نسبت زیادہ زہین معلوم ہونگے انکی یہی صلاحیت انہیں معاشرے میں خصوصی مقام دیتا ہے

بلوچستان میں خصوصی افراد کی تعلیم و تربیت کیلے مناسب اقدامات تاحال نہ کیٸے جاسکے کہنے کو تو محکمہ سوشل ویلفٸیر معذوروں کی فلاح کا دم بھرتا ہے مگر حالت یہ ہے کہ کوٸٹہ کے علاوہ صوبے بھر میں کوٸی قابلِ زکر تعلیمی ادارہ خصوصی افراد کے لٸے نہیں ہے سبی میں قاٸم سپیشل ایجوکیشن سینٹر کسی زمانے میں اسپیشل بچوں کا نامور تعلمی ادارہ ہوا کرتا تھا مگرجیسے ہی اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ محکمہ وفاق سے صوبے کے زیرانتظام آگیا سبی کے سپیشل ایجوکیشن سینٹر کو جیسے نظر سی لگ گٸی اب ضلع سبی میں قاٸم بولان سپیشل ایجوکیشن سینٹر خصوصی افراد کے لٸے کسی جیل سے کم نہیں جہاں روزانہ سکول ٹاٸم میں معذور افراد کو گاڑی میں لاد کر اس سینٹر لاکر چند گھنٹوں کو لٸے رکھ دیا جاتا ہے اور سکول ٹاٸم ختم ہونے پر انہیں واپس ورثہ کے حوالے کردیا جاتا ہے یوں لگتا ہے جیسے یہ ادارہ معذور افراد کیلے وقتی جیل ہے،،آپ اندازہ اس بات سے لگاٸیں کے بیناٸی سے معذور سماعت سے معزور اور جسمانی معذور افراد کیلے الگ الگ اسپیشلسٹ ٹیچرز کا ہونا ضروری ہے مگر یہاں تمام معذور بچوں کیلے کوٸی اسپیشلسٹ ٹیچر نہیں ہے تو ایسے میں تعلیم انہیں کیسے دی جارہی ہوگی؟ صاف ظاہر ہے سکول انتظامیہ اپنا وقت پاس کرتا ہے تنخواہیں کھری کردی جاتی ہیں اور تنخواہیں کھری کرنے کیلے معذور افراد کے تعلیمی ادارے کو جیل میں بدل دیا گیا،،

میں نے شروع کے سطروں میں لکھا کے بولان سپیشل سینٹر کس زمانے میں خصوصی افراد کے نامور تعلیمی اداروں میں شامل ہوتا تھا یہ زمانہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے کا تھا اس زمانے میں اس ادارے سے تعلیم حاصل کرنے والے قوتِ سماعت قوتِ گویاٸی سمیت مختلف جسمانی معذوری کے شکار افراد مختلف محکموں میں معذوری کوٹہ پر بھرتی ہوٸے اور اس وقت وہ اپنے گھر کا گزر بسر باعزت طریقے سے کررہے ہیں
یہ اس وقت کے اس ادارے کے انتظامیہ کا کمال تھا جنہوں نے سیکڑوں معذور افراد کو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے دوسروں کا محتاج ہونے معاشرے پر بوجھ ہونے سے بچایا اور معاشرے کا معزز شہری بنایا
مگر اب ۔۔۔۔
اب صورتحال یکسر مختلف اور انتہاٸی افسوسناک ہے جب سے اٹھارویں ترمیم کے بعد اس ادارے کا انتظام صوبے کے پاس آگیا معذور افراد کی چیخیں نکل گٸی ان معذور افراد کی بددعاٸیں بھلا کس کے کھاتے میں لکھے جارہے ہونگے ۔۔۔ایک نارمل آدمی جب تعلیم حاصل نہ کرسکے تب بھی اسکے پاس باعزت روزی کے حصول کے کٸی طریقے ہیں مگر بتایا جاٸے معذور افراد کو تعلیم دیٸے بنا معاشرے کا باعذت شہری کیسے بنایا جاسکتا ہے؟آپ اسے ان پڑھ بناکر معاشرے پر بوجھ ہی بناسکتے ہیں اور اگر معذور کی بنیادی حقوق کی پامالی ہوگی اسکی بددعاٸیں آہیں مسند اقدار پر بیٹھے ایک ایک فرد کو کبھی سکون سے جنینیں نہیں دینگے
اسپیشل ایجوکیشن سینٹر اب کباڑخانہ بن چکا ہے معذور افراد کے مستقبل کا کسی کو خیال نہیں وہ معذور افراد جنہیں کسی زمانے میں خصوصی تعلیمی اداروں کے بہترین کارکردگی کے باعث ہم مختلف محمکوں میں کلرکس یا دیگر عہدوں پر براجمان دیکھتے تھے بالکل انہیں کی طرح کے معذور افراد اب تعلیمی ادارہ نہ ہونے کے باعث ہمیں سڑکوں پر بھیک مانگتے دیکھاٸی دیتے ہیں ان معذور افراد کو معاشرے کا معزز شہری بنانے کے بجاٸے بھکاری بنانے کا زمہ دار حکومت ہے
اب کم ازکم ان کی حالت زار پر رحم کیا جاٸے بولان سپیشل ایجوکیشن سینٹر سبی کی حالت کو بہتر کیا جاٸے وہاں میٹرک پاس ٹیچرز کے بجاٸے ہر معذوری کے شکار بچے کے لٸے الگ اسپیشلسٹ ٹیچرز تعینات کیٸے جاٸیں ایسا نہ ہوکے پھر دیر ہوجاٸے

اپنا تبصرہ بھیجیں