"وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کرونا پر دوغلی سیاست”

تحریر: بلاول ساجدی
کرونا وائرس قدرتی وباء ہے یا پھر انسانی سازش ہے۔ اسکے تاہم اب تک کوئی حقائق سامنے نہیں آئیں۔ مگر پاکستان میں کرونا کے نام پر سیاست کے علاؤہ کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ صرف اور صرف عوام کو نفسیاتی مریض بنا کر پریشان کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں صحت کا شعبہ مہنگا ترین شعبوں میں سے ایک ہے۔ پرائیویٹ اسپتالوں میں عوام کی کھال کو نوچ لیا جاتا ہے۔ اور سرکاری اسپتالوں میں ہر قدم پے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ عوام کے لیے اتنی سنجیدگی کرونا پر حکومت نے دکھایا کسی اور چیز پر کبھی نہیں دکھائی۔ حقیقتاً حکومت عوام کے لیے سنجیدہ ہوتی تو میڈیسن پر اتنا ٹیکس لاگو نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے میڈیسن کی قیمتیں بھی اسی حکومت میں بڑھ گئی ہے۔
کرونا کا ٹیسٹ کٹ انکو تقریباً پاکستانی 3500 روپے میں مل رہا ہے مگر کرونا کا ٹیسٹ 7000 سے 8000 تک کا ہو رہا ہے۔ 100 فیصد سے بھی زیادہ منافع لیا جارہا ہے۔
پاکستان کی دیہاتی علاقوں میں کرونا کی ٹیسٹ کی سہولت تک موجود نہیں ہیں۔ کرونا کی پہلی لہر میں تقریباً تین ماہ تک مکمل لوک ڈاؤن کیا گیا کہ پاکستان سے کرونا کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ تین ماہ کے مکمل لوک ڈاؤن سے غریب سے لیکر امیر لوگوں نے بھی بہت سی پریشانیاں سہی ہیں۔ حکومت نے گھر گھر عوام میں راشن تقسیم کرنے کا ڈونگ رچایا مگر یہاں بھی غریب عوام کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔
پاکستان میں پہلے سے شرحِ خواندگی بہت کم ہے۔ کرونا کی نام پر تمام تعلیمی ادارے بند کیے گئے۔ اور آن لائن کلاسز کا ڈونگ رچایا گیا۔ پہلی بات پاکستان کا زیادہ تر علاقے دیہاتی ہیں۔ جہاں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہیں۔ اگر انٹرنیٹ کی سہولت موجود بھی ہے تو سگنل کے مصلے ہوتے ہیں۔ کرونا کی پہلی لہر میں بلوچستان کی اسٹوڈنٹس کو بہت مشکلات کا سامنا ہوا تھا۔ انھوں نے آن لائن کلاسز کے خلاف کوئٹہ میں احتجاج بھی کیا اور پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا۔ دوسری بات حکومتی چیلے کے الیکٹرک اور واپڈا کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بھی اسٹوڈنٹس کو آن لائن کلاسز لینے میں کافی مشکلات کا سامنا ہوا۔ تیسری بات یہ ہے کہ جو چھوٹے بچے ہوتے ہیں انکو ہاتھ پکڑ کر لکھایا اور پڑھایا جاتا ہے۔وہ آن لائن کلاسز سے کچھ بھی نہیں سکھ پارہے ہیں۔ پاکستان میں تعلیمی ادارے بند کرواکے شرحِ خواندگی کو مزید کم کرنے کی کوشش کیا جارہا ہے۔
کرونا کی پہلی لہر میں مکمل لوک ڈاؤن میں تاجروں کا بہت بڑا نقصان ہوا۔ آخر میں تاجر برادران احتجاج کرنے لگے. تو حکومت نے SOP بنا کر آہستہ آہستہ کر کے لوک ڈاؤن میں نرمی لانا شروع کیا۔ پھر مکمل ختم کیا۔ جب لوک ڈاؤن ختم ہوا تو SOP کی بھی دھجیاں اڑا دی گئی۔۔جس طرح لوک ڈاؤن کرنے کے لیے پولیس سرگرم تھا اگر SOP میں عمل درآمد کرنے میں بھی ایسے سرگرم ہوتا تو آج کرونا کی نئ کیسز میں بہت کمی آچکا ہوتا۔
نومبر کے شروع ہوتے ہی حکومت نے کرونا کی دوسری لہر کا گانا گانا شروع کیا۔ اور کچھ دن بعد اسمارٹ لوک ڈاؤن کرنا شروع کردیا۔ پھر آہستہ آہستہ مکمل لوک ڈاؤن کی طرف جانا شروع کر رہے ہیں۔ اور وزیراعظم کہتے ہیں کہ میں لوک ڈاؤن نہیں کروں گا مجھے غریب عوام کا احساس ہیں۔ مگر صوبائی حکومتیں اپنی من مانی کر رہےہیں۔ سندھ میں سائیں سرکار رات آٹھ بجے سے لوک ڈاؤن کر رہا ہے۔ اور سندھ پولیس دکان داروں سے بھتہ وصول کرکے انکو اجازت دے رہا ہے۔ اس لوک ڈاؤن سے پولیس اپنا کاروبار چلا رہا ہے۔ جو دکان دار بھتہ دیتا تو پولیس اسکو دیر رات تک دوکان کھولنے کی اجازت دیتا ہے۔
اسوقت پاکستان پیپلز پارٹی PDM کا حصہ ہے اور PDM والے کہتے ہیں کہ ہم ہر حال میں جلسے کرینگے چاہیے کچھ بھی ہو جائیں۔ PDM کے جلسوں میں یہی مٹی کے بنے ہوئے انسان شرکت کرینگے۔ کیا ان پر کرونا حملہ نہیں کر سکتا۔ یا پھر PDM کے جلسوں میں قلائی مخلوق شریک ہونگے۔ اور اتفاق سے سندھ میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ اور سندھ میں وہ کرونا کا رونا رو رہا ہے۔ اور تمام شہروں میں لوک ڈاؤن کررہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں خداراء کرونا پر اپنی دوغلی سیاست ختم کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں