حکومت اور پی ڈی ایم کی جنگ

تحریر:عبدالرؤف ریکی

یہاں اگر ہم سیاسی تاریخ کے پس منظر کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں بآسانی سب کچھ صاف صاف نظر آئیں گے کیونکہ ہمارے ملک میں ہر ہمیشہ اقتدار میں ہونے والوں کو ”سب کچھ اچھا” اور اپوزیشن والوں کو ” سب کچھ اچھا نہیں ” نظر آ تا ہیں،گیارہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک جمہوری تحریک پی ڈی ایم بنائی گئی ہے جس میں قوم پرست مذہبی اور وفاقی پارٹیاں شامل ہیں پی ڈی ایم کا ظاہری مقصد جمہوریت کی بالادستی ہے لیکن ان میں تمام جماعتیں وہی ہیں جو اقتدار کا مزہ ضرور لے چکے ہیں،کم از کم کسی ایک کا کوئی ایک ممبر اسمبلی ضرور رہ چکا ہے صوبائی اسمبلی ہو یا پھر قومی اسمبلی اور زیادہ سے زیادہ اگر دیکھا جائے تو وزارت عظمیٰ تک یا صدر تک کا مزہ لینے والے بھی اسی پی ڈی ایم میں شامل ہے. پاکستان میں سابقہ سب سے بڑی جماعت پی پی جو کہ اب دوسرے نمبر پر ہے جسکی خدمات پاکستان کے لیے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن جو کہ اب تک کی سب سے بڑی پارٹی سمجھی جاتی ہے وہ بھی اس پی ڈی ایم کی سب سے طاقتور پارٹی کہلاتی ہے اس کے علاوہ مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام ف پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتوں میں سے ایک یعنی تیسری بڑی جماعت ہے باقی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں اے این پی،بی این پی مینگل،سمیت دیگر پارٹیاں بھی ہیں،لیکن اے این پی خیبر پختون خواہ میں اور بی این پی مینگل بلوچستان میں کافی شہرت کی حامل ہیں،یعنی اپنے اپنے صوبوں میں بڑی بڑی پارٹیوں میں شمار ہوتی ہیں اس کے علاوہ پشتون خوا میپ جسکا سربراہ محمود خان اچکزئی صاحب تو جمہوریت کے حوالے سے ایک قد آور شخصیت اور سب سے بڑھ کر جمہوریت پر یقین رکھنے والے ہیں، اس کی جماعت بھی اسکا حصہ ہے اور بلوچستان کے پختون بیلٹ میں اپنا سکا جمایا ہوا ہے. اب اس لیے پی ڈی ایم بنائی گئی ہے تاکہ ملک میں جمہوریت کا بول بالا ہو اور ملک میں اصل جمہوریت کا راج ہو، یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب جب برسر اقتدار تھے تو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کا دست راست بنے ہوئے تھے بلکہ اس وقت کی مذہبی جماعتوں کا اتحاد ایم ایم اے کو تو پرویز مشرف کی گود میں بٹھایا گیا تھا اور کئی سخت موقعوں پر وہ پرویز مشرف کے لیے ڈھال بن کر اسکی حکومت کو بچانے میں اپنا رول پلے کیا کرتے تھے.اس وقت انہوں نے کیوں احتجاج نہیں کیا،اور اس کو جمہوریت کا خیال کیوں نہیں آیا وہ حکومت کا مزہ لیتے رہے کیونکہ اس وقت اقتدار کا نشہ آنکھوں پہ چھایا ہوا تھا اور سب کچھ اچھا نظر آ رہا تھا. پاکستان پیپلزپارٹی جو کہ بی بی کے دور میں چڑھائی کر رہی تھی اور جناب آصف علی زرداری کے دور میں اترائی کرتی گئی میرا مقصد یہ کہ بی بی نے آخری جو مہم چلائی تھی یعنی فصل بوئی تھی وہی فصل زرداری صاحب نے بڑے اطمینان سے کاٹی پھر اسکے بعد زرداری صاحب کی بوئی فصل بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی والے اچھی طرح سے جانتے ہونگے لیکن لوگوں کو وہ قوت نظر نہیں آ رہا جو بی بی کے دور میں تھا چلو اس بات سے اتفاق کرنا ہوتا ہے کہ ہر ایک کی اپنی حکمت عملی ہوتی ہے. ویسے پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں بھی جمہوریت انہیں بالا دست نظر آرہی تھی کیونکہ وہی اقتدار کا نشہ چھایا ہوا تھا اور ”سب کچھ اچھا” نظر آرہا تھا. رہی بات مسلم لیگ ن کی یہ تو ماشاء اللہ سب سے بڑی جماعت اور پاکستان کی آبادی والے سب سے بڑا صوبہ پنجاب سے تعلق ہے اور پنجاب ہی کو،ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اس پی ڈی ایم کے آخری جلسوں کے لیے بھی عوامی توقعات ن لیگ سے وابسطہ ہیں کیونکہ کہ پاکستان میں سب سے بڑی افرادی قوت ہی پنجاب ہے پنجاب والوں نے جہاں کا رخ کیا ہے آخر کار وہی ہوا ہے. میں نے مختصراً پی ڈی ایم میں تین بڑی جماعتوں کا تذکرہ کیا حالانکہ یہی تین پارٹیاں بھی ماضی میں ایک دوسرے کو سیاسی حوالے سے نیچا دکھانے کے لیے کوئی کسر نہیں چوڑی ہے قارئین کو یاد ہوگا کہ جب پی پی اقتدار میں تھی اور آصف علی زرداری صاحب جب صدر پاکستان تھے تو شہباز شریف اور ن لیگ والے بڑے لیڈران علی بابا چالیس چور کے نعرے لگاتے تھے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں بھی کیا کرتے تھے، جواباً آصف علی زرداری صاحب بھی مولوی،نواز شریف وغیرہ کے اصطلاحی الفاظ استعمال کیا کرتے تھے آخر کیوں…؟
اس لیے کہ اقتدار والوں کو نیچا دکھانے اور اپنی پارٹی والوں اور عوام میں مقبولیت پانے کے لئے کرتے تھے اور آنے والے الیکشن کے لئے راہ ہموار کرتے تھے ماننا پڑے گا کہ ہمارا سیاسی نظام کمزور ہے اور یہی وجہ ہے کہ چار بار غیر سیاسی حکومتیں بھی دیکھنا پڑی اور پانچویں بار بھی سیاسی چپقلش کی وجہ سے ایک بار پھر وہی بادل منڈلانے لگے ہیں شاید اب کی بار قوم کی وسیع تر مفاد میں ایسا نہ ہو بہرحال پی ڈی ایم ایک نہ ایک راہ ضرور نکالنے پے تلے ہوئے ہیں میرا مقصد عمران حکومت کی تعریف ہر گز نہیں مگر کچھ ماضی کے حقائق عوام کو بتانا بھی فرض بنتا ہے اور عمران خان میرے خیال میں وہ نا اہل حکمران ہی ہے  جو پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلا شخص ہو جسکی وجہ سے ملک کی معیشت پر برا اثر پڑ رہا ہیں.. غریب لوگوں کے گھروں میں چھولے بجھ گئے ہیں آٹا اور چینی کی قیمتیں پہنچ سے دور ہیں گوشت کھانا تو کیا دال،آلو،ٹماٹر اور گوبھی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں نوکری دینے کے بجائے بیروزگار کیا جا رہا ہے جو چیز 2سال پہلے 60 کی تھی اب 160 کی ہو گئی ہے روزگار کے مواقع پیدا نہیں کئے جا رہے صرف اور صرف عمران خان اپنے وہی رٹے کا وظیفہ کر رہا ہوتا ہے کہ میں کسی صورت این آر او نہیں دونگا حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس سے کون این آر او مانگے گا. یہ جتنی دیر حکومت میں رہے گا اتنا ہی بوجھ ملک پہ ہو گا لیکن نہ جانے وہ کس خوش فہمی میں ہے اور ایسا کہہ رہا ہے اسی ناتجربہ کار عمران کی وجہ سے پی ڈی ایم نے کم وقت میں زیادہ شہرت پائی، لوگ ایسے تنگ تھے کہ کوئی آکے رہنمائی کرے تو کمال عمران خان صاحب کا ہی ہے کیونکہ انہوں نے عوام کو مہنگائی بیروزگاری کا تحفہ دیدیا ہے اس مایوسی کے موڑ پہ لاکھڑا کیا ہے2013 سے لیکر اقتدار کے دنوں تک وہ اسٹیج پر ایسے دعوے کرتے تھے یوں لگتا تھا کہ عمران خان صاحب جیسے ہی اقتدار سمبھالیں گے تو سارا نظام ٹھیک ہونے میں بس مہینے تک نہ لگیں گے لیکن اڑھائی سال ہونے کو ہیں کچھ بھی نظر نہیں آرہا انہوں نے اپنی مہم میں نیا پاکستان کا نعرہ لگایا، انہوں نے تبدیلی لانے اور ریاست مدینہ کا ایک بڑا وعدہ کیا اب تو نیا پاکستان عوام کو دیدیا ہے مگر اس نئے پاکستان کے لیے عوام نے سوچا تک نہیں تھا تبدیلی تو آئی لیکن خوشحالی سے بدحالی کی تبدیلی آئی جسے کم از کم ہر کوئی زی ہوش پسند نہیں کرتا اور رہی بات ریاست مدینہ کی تو ریاست مدینہ والے کیا ایسے ہی کرتے تھے.. جیسے عمران خان صاحب کر رہے ہیں. ریاست مدینہ کے مالک نہ صرف مدینہ کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک تاریخی مثال بن گئے پر امن ترقی کے ضامن،بے سہاروں کا سہارا،غریب پرور سب کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ یہاں تک کہ دنیا کے سب سے بہترین انسان قرار پائے اور دوست تو دوست دشمنوں سے بھی صادق اور امین کا لقب پا لیا..
ہمارے وزیراعظم صاحب باتیں تو بڑی کرتے ہیں مگر کام سابقہ وزیر اعلیٰ پنجاب(شہباز شریف) جیسے بھی نہیں کر پائے اور وہ اب بھی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ میں آنے والے اڑھائی سال میں وہی کچھ کر دکھاؤنگا جسکا میں نے وعدہ کیا ہے، انہیں شاہد یہ علم نہیں کہ پی ڈی ایم کا ہر جلسہ پچھلے والے جلسے سے بڑا ہو رہا ہے اور آہستہ آہستہ اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے ہیں شاید وہاں تک پہنچ پائیں جہاں پر عمران خان صاحب پہنچ کر کنٹینر پہ کھڑے ہو کر پارلیمنٹ والوں پر زبانی تیر برسائے تھے اور بڑی بڑی باتیں کرتے تھے اس کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ایک نہ ایک دن میں بھی اسی پارلیمنٹ میں آ ونگا اور میری باتیں میرے گلے پڑ جائیں گی..
ادھر پی ڈی ایم بھی سخت غصے میں جلسہ کے اوپر جلسہ کرتی چلی آ رہی ہے اور لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسا رہی ہے اور یہاں بلوچستان میں ایک انوکھا واقع یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ وہی لوگ ایک ہفتہ پہلے پی ٹی آئی کی حمایت میں ریلی میں نظر ائے پھر وہی لوگ ایک ہفتے بعد پی ڈی ایم کے قافلوں کا حصہ بھی رہے اور باقاعدہ طور پر پی ڈی ایم کے جلسہ میں شریک تھے…
حکمرانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ مزدوروں کو دہاڑی دیکر کرایہ دیکر لایا گیا تھا اب یہ معلوم نہیں کہ کون کس کو لایا تھا کیونکہ وہی لوگ حکمرانوں کی حمایت میں پھر وہی لوگ اپوزیشن کی حمایت میں تھے لگتا ہے کہ عوام بیزار بھی ہے اور بے روزگار بھی’ مزید دیکھنا ہوگا کہ پی ڈی ایم والے کرائے پر لانے والی ہے یا حکمران طبقہ کرایہ پر لوگوں کو لاتے ہیں بات صرف اور صرف تین مہینوں تک کی ہے اور پھر ابر آلود موسم ہر ایک کو صاف نظر آ ئے گا یعنی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا لیکن خدشہ یہ ہے کہ دودھ اور پانی اپنا اصل رنگ کہیں کھو نہ بیٹھے پھر ہر ایک کو پچھتاوئے کے سوا کچھ نہیں ملے گا…….

اپنا تبصرہ بھیجیں