نیا سال، بیک ڈور ڈیل اور پرانے سیاست دان

تحریر: ثمین صدیق

جو ہورہا ہے وہ ہوتا ہے ،سیاسی منظر نامے بھانپ بھانپ کے بدلاؤ کے صدیوں سے متحمل ہیں، لیکن اس بار بیک ڈور ڈیل کس کو آفر ہوگی یا پرانے سیاست دان اس نئے آنے والے سال میں کوئی معرکہ سر کرلیں گے یا کس بند گلی سے راستہ یا سرنگ بنا دی جائے گی، یہ معاملہ خاصہ دلچسپ ہے !

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی شروعات ہی جن ہنگامی بنیادوں پر ہوئی تھی اس سے یہ بات تو واضح تھی کہ اب آئے دن کوئی نہ کوئی سیاسی معرکہ سردیوں کے موسم میں عوام کے جذبات اور سیاسی اکھاڑے کو گرم رکھے گا۔
البتہ تیرہ دسمبر کا لاہور جلسہ کامیاب تو نہ ہوسکا لیکن بلاشبہ اپنے ساتھ سیاسی مستقبل کی نئی بساط بچھا چکا ہے بلکہ بند دروازوں پر دستک دینے میں بھی کسی حد تک کامیاب ہوا ہے۔ لیکن اس بار دسمبر کے عہد و پیمان آسان نہیں اگر دیکھا جائے تو اس نومولود پی ڈی ایم اتحاد میں ملک کی ایک دو نہیں بلکہ گیارہ جماعتیں شامل ہیں اور مستقبل میں ان کو نہ تو زمین کھائے گی اور نہ ہی موروثی سیاست کے لیڈروں پر آسمان گر سکتا ہے جو یہ صفحہ ہستی سے ہی مٹ جائیں اور پی ٹی آئی حکومت قیامت کی بوریاں سمیٹ سکے ۔ اقتدار کی جنگ میں اب کی بار "بادشاہ” کا وزیر کون اور چور کون بنے گا اور اس سیاسی دنگل میں اینڈ گیم کیا ہوگی ؟
جلسہ پہ جلسہ ،تقریر پر تقریر ،حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے، پرانے کھلاڑی کھیل نیا لیکن ایمپائر وہی اور ڈائیلاگ کی دعوتِ تو اس کھیل کا اب آگے کیا ہونے والا ہے،کیا پی ڈی ایم 31 جنوری کو وزیر اعظم کا استعفیٰ نہ ملنے پر لانگ مارچ کرے گی اور چلیں کر بھی لے تو کیا یہ سیر حاصل ہو گا؟
شور ہے کہ اپوزیشن کو جلسوں اور لانگ مارچ اور دھرنوں سے کیا ملے گا؟ کونسی حکومت جلسوں یا دھرنوں سے گری ہے بلکہ کپتان کو اندرونی حمایت حاصل ہونے کے باوجود حکومت گرانے میں 2014 میں کامیابی نہیں ملی تھی ۔
تو جناب! جلسے جلوسوں اور دھرنوں سے حکومتیں نہیں جاتی بے شک !لیکن مفاہمت کے راستے، انداز تقریر ، الفاظ کا کھیل اور سیاسی داؤ پیچ کا مظاہرہ سیاسی گیم میں لانگ رن کا راستہ ضرور ہموار کرتے ہیں۔ اور کس کا سیاسی مزاج آئندہ حکومت کے لیے موزوں ہوگا یا صف اول نہ سہی صف دوم کے لیے کارآمد ہوگا، اسکا تعین بھی جلسے جلوس،اور سیاسی داؤ پیچ کرتے ہیں۔ تو یہ سیاسی مشق اور طویل اعصاب شکن جنگ ایسے ہی نہیں کھیلی جارہی ،پی ڈی ایم کے کھلاڑی نہایت تجربہ کار اور سندھ ، پنجاب اور بلوچستان میں بڑے ووٹ بینک کے ساتھ گہری جڑیں رکھتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی طرف سے اب تک کے آئے گئے بیانات میں سے اگر کوئی کھلاڑی سنھبل کر چل رہا ہے تو وہ ہے پاکستان پیپلز پارٹی- نپے تلے بیانات ،”اندرونی طاقتوں” کے ذکر پر سنبھل کر سیاسی رنگ میں ڈھلے جواب دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کامیاب رہے ہیں ،نہ کسی ادارے کو بیچ میں گھسیٹا اور نہ ہی اداروں کے نام لیے جانے پر ن لیگ کی کھل کر حمایت کی اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کسی قدر اہل، عوام اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابلِ قبول وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ ن جو اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر تاریخ اور نظریاتی اعتبار سے تین دفعہ "اندرونی اداروں” اور عوام کا اعتماد جیتی تھی اب "ارباب اختیار” کے سامنے "میری بلی مجھ ہی کو میاؤں ” کی مثال بن کر رہ گئی ہے۔ چوک، چوک بازار، بازار اپنی زبان سے سارے راز افشاں کررہی ہے ،اس صورتحال میں ن لیگ سیاسی داؤ پیچ میں پی پی سے پیچھے رہ گئی ہے۔بہرحال اسکا موزوں جواب اور مستقبل کے وزیراعظم کا انتخاب بھی تاریخ خود کردے گی۔
اپوزیشن کی پریشر ٹیکٹس سے اتنا تو ہوا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین ڈیڈ لاک کی برف کچھ پگھلی ہے جب 11 دسمبر کو وزیر داخلہ بننے والے شیخ رشید نے من پسند نام سے مذکرات کی دعوت دی ،وہاں ہی وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی پارلیمان کا تقدس قیمتی جانتے ہوئے ڈائیلاگ کے قصیدے پڑھے ہیں۔ سویلین اور قانونی بالادستی کے نعرے لگانے والی پی ڈی ایم کے یہ آنے والے دو ماہ نہایت صبر شکن اور طویل ہوں گے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق شیخ رشید کو پی ڈی ایم سے دو دو ہاتھ کرنے اور قانونی اعتبار سے نمٹنے کے لیے ہی وزیر داخلہ بنایا گیا ہے۔ شیخ رشید کی پہلی اسڑیٹجی میں مذاکرات کی دعوت اور میانہ روی رکھنے والوں کی چھانٹی شاملِ ہے۔ جو حکومت کے لیے سنگین مسائل بڑھا سکتے ہیں انکو دوسری اسٹیج میں کرپشن چارجز میں قانونی بالادستی کی جم کے یقین دہانی کروائی جائے گی۔ اور تیسرے اسٹیج میں باقی اکا دکا بچ جانے والے یقیناً حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں گے اور مستقبل کی سیاسی صفوں میں شامل ہوں گے اور بیک ڈور ڈیل کے مستحق قرار پائیں گے۔

اب اس سیاسی اکھاڑے سے ذرا دوسری جانب نگاہ ڈالیں تو غربت کی چکی میں پستی عوام بس منہ کھولے تماشائی بنی دکھائی دیتی ہے۔ غریب عوام کا احساس نہ تو اپوزیشن کو ہے اور نہ ہی حکومت وقت مہنگائی سے نمٹنے کے لیے کوئی مستقل موثر اقدامات کرپا رہی ہے۔ کورونا کے تیزی سے بڑھتے ہوئے کیسز بھی باعث تشویش ہیں۔ ففتھ جنریشن وار،مہنگا پیٹرول، گیس کے بحران کے اندیشے خاصے اہم موضوع بحث ہیں۔ پاکستان کے لاتعداد مسائل اس سیاسی مشق پر وقت ضائع کئے بغیر اگر واقعی گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے ذریعے کیے جائیں تو پاکستان کی قسمت بدل سکتی ہے لیکن اس کے لیے حکومت،اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو سچ بول کے واقعی قومی سلامتی کے لیے دھرنوں اور بلیک میلنگ کی سیاست سے بالاتر ہوکر آگے بڑھنا ہوگاورنہ ہر سال کی طرح اس سال بھی عوام بس ان اشعار میں اپنی قسمت بدلنے کی امید کرتی رہے گی۔

‏نتیجہ پھر وہی ہوگا سنا ہے سال بدلے گا
پرندے پھر وہی ہونگے شکاری جال بدلے گا

بدلناہےتو دن بدلو بدلتے کیوں ہو ہندسے کو
مہینے پھر وہی ہونگے سنا ہے سال بدلے گا

وہی حاکم وہی غربت وہی قاتل وہی ظالم
بتاؤ کتنے سالوں میں ہمـارا حـال بدلے گا ؟

اپنا تبصرہ بھیجیں