پی ڈی ایم کا ضمنی انتخابات میں شرکت کافیصلہ
پی ڈی ایم نے فی الحال ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے،سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔لیکن غالب امکان یہی ہے کہ وہ فیصلہ بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔سیاست میں بائیکاٹ ایک عارضی حربہ ہوتا ہے،اسے مستقل طور پر آزمانا کبھی بھی مطلوبہ نتائج نہیں دیا کرتا۔پی پی پی کی قیادت انتخابی عمل سے دوررہنے کو پسند نہیں کرتی۔اس نے ہمیشہ اپنا اصولی مؤقف سب کے سامنے رکھا اور کھل کربات کی۔انتخابی عمل سے دوری میں گھاٹے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔اپنے مخالف کے لئے میدان رضاکارانہ طور پر خالی کردینا اپنی نمائندگی کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔پی ڈی ایم نے وزیر اعظم عمران خان کو 31جنوری تک مستعفی ہونے کا موقع دیا ہے اور ایک بار پھر کہاہے کہ مستعفی نہ ہونے کی صورت میں اجلاس بلا کر لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دی جائے گی۔الیکشن کمیشن، اور نیب دفاتر کے باہر مظاہرے کریں گے،گرفتاریاں دینے اور جیلیں بھرنے پر بھی غور ہو رہا ہے۔پی ڈی ایم کے سربراہ نے مریم نواز اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کہا کہ عمران خان مہرہ ہیں، انتخابات میں دھاندلی کی اصل قصوروارایسٹبلشمنٹ اور فوجی قیادت کو سمجھتے ہیں، تنقید بھی برملا ان پر ہوگی۔مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان زبیر عمر نے ایک نجی ٹی وی چینل پرگفتگو کے دوران کہا کہ سینیٹ الیکشن میں بھی حصہ لیں گے۔مریم نواز نے میڈیا کے روبر و کہا ہے کہ استعفوں پیچھے نہیں ہٹیں گے لیکن سینیٹ کا انتخابات استعفوں سے ایک دن پہلے بھی ہوئے تو اس میں حصہ لیں گے۔جعلی حکومت کے لئے کوئی راستہ خالی نہیں چھوڑیں گے۔ مشترکہ امیدوار کھڑے کرنے کے بارے میں بھی سوچا جا سکتا ہے۔
سیاست یہی سکھاتی ہے کہ موقع محل کے مطابق حکمت عملی وضع کی جائے۔حکمت عملی مخالف فریق کی حرکات و سکنات کو سامنے رکھ کر وضع کی جاتی ہے۔لڑائی کے دوران ہر لمحہ چوکنا رہنے اور کسی ایسی غلطی کا ارتکاب کرنے کی گنجائش نہ ہونے کو یقینی بنانا ضروری ہوجاتا ہے جس کا فائدہ دشمن کو پہنچتا ہو۔پی ڈی ایم کی اعلیٰ قیادت کو علم ہے کہ وہ وزیر اعظم عمران سے نہیں لڑ رہے، ان کا اصل ہدف انہیں اقتدار میں لانے والے ہیں۔یہ کام حد درجہ نزاکتوں کا حامل ہے۔ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھاناہوگا۔ذرا آنکھ جھپکی، ادھر میدان کا نقشہ بدلا والی صورت حال ہے۔اکیلے عمران کو ہٹانا مقصود ہوتا تو معاملات اتنے پیچیدہ نہ ہوتے۔ایسی دشوار جنگ کو کامیابی تک پہنچاناہے تو پی ڈی ایم کی قیادت کو اپنے ہوش وحواس کے ساتھ اپنی زبان کو بھی قابو میں رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔زبان پھسلنے سے بھی مخالف فریق فائدہ اٹھارہا ہے۔اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی تیاری اور اعلان کے ساتھ اگلے مورچوں پر موجود ہے۔ اچھا ہوا پی ڈی ایم نے زمینی حقائق کے پیش نظر دانشمندانہ فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کی۔یہ بھی یاد رہے کہ سیاست میں کامیابی اسی وقت یقینی ہوتی ہے جب جب عوام کی بھاری اکثریت قیادت کے گرد جمع نظر آئے۔صرف دعوے کارگر نہیں ہوتے۔اور عوام کو بے زبان جانوروں کی طرح ہانکنے کی پالیسی دنیا میں متروک ہونے لگی ہے۔عوام جانتے ہیں کہ آج کی اپوزیشن گزشتہ چار دہائیوں تک اقتدار میں رہی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ گزشتہ چار دہائیوں عوام کے مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا۔اس دوران سیاست دان اپنے غلط اندازوں کے باعث عوام سے دور ہوتے چلے گئے۔پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے میثاق پاکستا ن کا خوش کن نعرہ سنائی تو دیا لیکن اس جانب کوئی ٹھوس پیشرفت نہیں ہوئی۔مشترکہ پلیٹ فارم کے لئے ایک متفقہ حکمت عملی پر مبنی سیاسی دستاویز لازمی شرط ہے۔پی ڈی ایم نے اس کمی کو دور کرنے کے ایک ہلکا پھلکا نعرہ لگایا مگر اس پر سنجیدگی سے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ ایسٹبلشمنٹ جیسے منظم اور تربیت یافتہ ادارہ سے اپنی بات منوانا، اور اسے کسی مرکزی منشور کے بغیر اپنے تابع کرنا آسان نہیں۔
کسی متفقہ دستاویز کی عدم موجودگی میں یہ مفروضہ در ست نہیں کہ مختلف الخیال کارکنان کا اجتماع ان کے درمیان یکجہتی اور یگانگت پیدا کرنے کے لئے کافی ہے۔پی پی پی، مسلم لیگ نون اور دیگر 8سیاسی جماعتیں تا حال کسی مرکزی نعرے اور عوامی حمایت کو اپیل کرنے والی حکمت عملی سے تہی دامن ہے۔دسمبر2020کے آخری ہفتے میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے جلسے سے خطاب کے دوران ملک کو درپیش بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لئے ایک سادہ مگر پر وقار نسخہ پیش کیاتھا،انہوں نے کہاتھا: چیف آف آرمی چیف قمر جاوید باجوہ میڈیا کے روبرو کہہ دیں:
1: آئندہ ملک میں آئین اور قانون کی بالا دستی ہوگی،
2: پارلیمنٹ طاقت ک سرچشمہ ہوگی،
3: کوئی یہ نہیں کہے گا: فلاں کو وزیر لگا دو،
4: داخلی و خارجی پالیسیاں بنانے سمیت عوام کی قسمت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پی ڈی ایم اپنے سربراہی اجلاس میں محمود خان اچکزئی کے پیش کردہ مطالبے کو اپنا منشور قرار دیتی۔پی ڈی ایم کا مؤقف اس سے زیادہ مختصراوراتنے جامع انداز میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔محمودخان اچکزئی نے پی ڈی ایم کی ایک بڑی مشکل حل کر دی تھی۔مگر پی ڈی ایم کی قیادت اس کی قدر و منزلت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہی۔ایسے خوبصورت اور پر معنی جملے شاذ و نادرہی کسی سیاست دان کی زبان سے سننے کو ملتے ہیں۔ابھی دیر نہیں ہوئی،پی ڈی ایم اپنے آئندہ سربراہی اجلاس میں اس حوالے سے غور کر سکتی ہے۔یاد رہے ملک نازک حالات سے دوچار ہے۔فہم و فراست سے کام لیا جائے،دیوار سے سر مارنے کے لئے عقل و دانش کی چنداں کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ہر شخص، ہروقت اپنا سر دیوار سے ٹکرا کر خودکو لہولہان کر سکتا ہے، مناسب ہوگا محمود خان اچکزئی کے پیش کردہ فارمولے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔