اگر کورونا نے پنجے گاڑھ دیے تو ہمارے لوگ خزاں زدہ پتوں کی طرح موت کے منہ میں چلے جائینگے، احتیاط کی ضرورت ہے، محمود خان اچکزئی

کوئٹہ:پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئر مین محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ آپ سب جانتے ہیں کہ اس وقت تمام انسانیت ایک بہت بڑی بلا (کرونا وائرس)کے ساتھ مقابلے میں ہے،اس وقت جب ہم ایک دوسرے سے ہم کلام ہورہے ہیں،تقریباً 542382 افراد اس بلا کے پنجوں میں ہیں اور اب تک دنیا میں اس بلا کے مقابلے میں 24368 انسان زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔یہ بیماری دسمبر 2019ء میں چین کے ”ہوبائی“ علاقے میں، جو”ووہان“میں نمودار ہوئی، اور مارچ 2020 ء میں اقوام متحدہ کے ادارے WHO نے اس بیماری کو ایک عالمی وباء قرار دیکر عالم انسانیت کو اس سے متعلق بیدار کیا۔تین مہینے کی قلیل مدت میں یہ بیماری دنیا کے تقریباً 199 ملکوں تک پھیل گئی۔چین کے بہادر عوام اور ان کے مایہ ناز ڈاکٹروں نے اپنے 3292 بچوں کی قربانی کے بعد کسی حد تک اس بلا کو پیچھے دھکیلا۔اب تک دنیا کے بعض ممالک میں اس بیماری سے مرنے والوں کی تعداد کچھ یوں ہیں۔امریکہ 1303،اٹلی8215 ، سپین 4365،ایران 2378،فرانس 1696یہ وہ ممالک ہیں جو انتہائی ترقی یافتہ ہیں، ان کے ہاں اچھے اچھے ہسپتال ہیں،لوگوں کی خدمت کے لئے بہت سارے وسائل ہیں، اگر چاہے تو اپنے تمام لوگوں کو پکی پکائی روٹی بھی مہیا کرسکتے ہیں۔اُن ممالک کا اِس بیماری نے یہ حال کردیا ہے۔حال یہ ہے کہ اٹلی اور سپین جیسے ترقی یافتہ ممالک میں یہ بلا تقریباً روزانہ پانچ پانچ سو انسانوں کی زندگیاں نگل رہی ہیں۔ ہمارا وطن پشتونخوا،ہمارا یہ پشتون بلوچ صوبہ،ہمارا ملک پاکستان اور اس میں رہنے والے اقوام و عوام،ہم بھی انسان ہیں،بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ سارا ایشیا جسمیں ہمار ا ملک بھی واقع ہے،ہم بھی انسان ہیں۔چاہیے تو یہ کہ اس بلا کے ساتھ انسانیت کے اس جنگ میں ہم اپنا حصہ ڈالیں۔مگر بات یہ ہے کہ یہ کسی اور طرح کی جنگ ہے،یہ جنگ تلواروں،پتھروں،ڈنڈوں،راکٹوں، توپوں،چاکووں اور جہازوں سے نہیں لڑی جاسکتی۔اس کا طور طریقہ مختلف ہے،یہ ہمیں وہ لوگ بتائینگے جو اس جنگ کو سمجھتے ہیں۔ہم مسلمان ہیں،ہمارا خدا،اس کے تمام پیغمبروں،رسولوں،اور انبیاء پر جو اللہ پاک نے وقتاً فوقتاً بھیجے ہیں اور ہمارا ان تمام کتابوں پربھی ایمان ہے جو اللہ پاک نے وقتاً فوقتاً بھیجے ہیں اللہ پاک نے قرآن کریم میں آدم علیہ السلام کی تخلیق کے موقع پراپنے اور فرشتوں کے درمیان مکالمے کا ذکر کیا ہے،جس میں خداوند کریم فرشتوں سے مخاطب ہیں،اور فرماتے ہے کہ میں کرہ ارض پر اپنا ایک نائب (خلیفہ) تخلیق کرنے جارہا ہوں۔فرشتے فرماتے ہیں کہ یہ زمین میں فساد برپا کرے گا اور کشت و خوں کا مرتکب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس پہ کچھ نہیں کہا گیا، صرف اتنا ارشاد ہے کہ جو کچھ میں جانتا ہوں، تم لوگ نہیں جانتے۔ اس طرح آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوتی ہے۔ہم مسلمانوں کی حیثیت سے آدم علیہ السلام کی تخلیق کے اسی فلسفے کو مانتے ہیں،جس کا ذکر اللہ پاک نے اپنی آخری کتاب قرآن کریم میں کیا ہے۔اللہ تبارک تعالیٰ کا یہ خلیفہ اپنی تخلیق کے دن سے لگا ہوا ہے محنت کر رہا ہے۔ اور جس طرح قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ اس (خلیفہ)نے بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔وہ فاصلے،جو مہینوں سالوں میں طے ہوتے تھے، وہ اب گھنٹوں میں طے ہورہے ہیں۔وہ بیماریاں، جو بستیوں اور شہروں کو اجھاڑ دیتے تھے، ان تمام بیماریوں کو حضرت انسان نے یا تو ختم کردیا ہے،یا ان میں نکیل ڈال کر اپنے تابع اور قابل علاج بنایا ہے۔ ہمیں پورا یقین اور بھروسہ ہے کہ اس بیماری کا بھی اللہ پاک کا یہ خلیفہ اپنے اُس علم کی بدولت جو اللہ پاک نے اُ س کودیا ہے،کے بل بوتے پر اس کا بھی علاج ڈھونڈ لے گا۔مگر اگر ہم نے سستی کی، تو پھر خدانخواستہ اموات کی تعداد بہت زیادہ ہوجائیگی۔اللہ پاک کا یہ خلیفہ مصروف ہے، بہت بڑے شہر بسا چکا ہے، بہت سارے اندھیروں کو اُجالے میں لے آیاہے،انسانیت کی خوراک اور لباس کے مسائل کوآسان کرچکا ہے،کھیت کھلیاں کو کافی ترقی دے گیا ہے،رسل و رسائل اور سفروں کوآسان بنا چکا ہے،زندگی کو آسان بنا لیاگیا ہے،مگر اب کچھ کرنا باقی ہے۔ہمارا ایمان ہے کہ اللہ پاک کا یہ خلیفہ اس بلا کا بھی علاج کرے گا،کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ بیماریاں جو شہر کے شہر اجھاڑ دیتے تھے،اور بالکل لاعلاج تصور ہوتے تھے،جیسے چیچک،ملیریا،ٹی بی، اینفلوئیزا وغیرہ،حضرت انسان نے ان کو یا تو ختم کردیا ہے اور یا قابل علاج بنا دیا ہے مگر آگے بڑھنے کے فاصلے پڑے ہیں،اس میں انسانوں نے ایک دوسرے کی امداد کرنی ہے۔ قرآن کریم اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ تقویٰ اور خیرکے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔تعاون کا طریقہ یہ ہوگا کہ اس بات کو سمجھنے والے ہمیں بتائینگے کہ ہم اس کارخیر میں کیسے تعاون کرسکتے ہیں؟سمجھنے والے اور ڈاکٹر حضرات فرماتے ہیں کہ یہ بیماری بھیڑ بھاڑ اور ایسے اجتماعات میں زیادہ پھیلتی ہے،جہاں انسان ایک دوسرے سے قریبی فاصلوں پرہو، اور روایتی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ گلے ملتے ہو، اور ہاتھ ملاتے ہو۔تمام دنیا میں ایسے تمام اجتماعات پہ پابندی لگائی جارہی ہے،جہاں انسانوں کا اکھٹ اور جمگٹھا ہو، یہ اکھٹ اگر کھیلوں کے لئے تھا،کسی پیر یا بزرگ ہستی کے عرُس کا تھا،یا روایتی میلے جیسے”گل سرخ“ اور ”نوروز“کے میلے۔اور تو اور،کچھ دن پہلے جب مسجد نبوی جیسے مقدس مقام کو آنے والوں کے لئے عارضی طور پر بند کیا جارہا تھا۔تو بند کرنے والے یہ کہہ رہے تھے کہ یہ بندش چودہ سو سال پہلے میں پہلی بار کی جارہی ہے۔کعبتہ اللہ کو بھی عمرہ کیلئے بہت محدود کردیاگیاہے۔اولمپک کے کھیل معطل کردئیے گئے ہیں۔آج کے اخبار میں تبلیغی جماعت کے بزرگوں کی طرف سے تبلیغی جماعتوں کو اپنی سرگرمیاں معطل کرنے کا کہا گیا ہے،کہ جہاں ہو،وہیں رُک جاو۔ایسے وقت میں ہمیں بھی ایک قوم کی حیثیت سے اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے اور وہ بھی اس طریقے سے جس سے دنیا کے لوگ ہم سے تقاضا کریں،اس میں مشکلات ضرور آئیگی۔دنیا کے بڑے بڑے شہر اس جنگ کی تیاری میں بند کردئیے گئے ہیں،ترقی یافتہ ملکوں کی وہ ہوائی کمپنیاں،جو کروڑوں اربوں ڈالر کماتی تھیں،اپنی پروازیں معطل کرکے اپنے تمام جہاز بند کردئیے ہیں۔اور اس نقصان کو انسانیت کی خاطر نقصان نہیں جانا۔یہ مشکلا ت آئینگی،ان کے لئے ہم نے کمر بستہ ہونا ہے۔قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص جو مجھے قرض دے۔اور پھر اسکی تفصیل یوں بیان کی ہے کہ کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا،کسی بھوکے کو کھانا کھلانا،کسی حاجت مند کی حاجت پوری کرنا،ایسے اعمال کو اللہ پاک اپنے اوپر قرض مانتے ہوئے ایک آیت مبارک میں ایک کے بدلے سات،کسی دوسری آیت مبارک میں ایک کے بدلے اکیس،اور ایک اور آیت مبارک میں ایک کے بدلے ستائیس گنا دینے کا وعدہ آیا ہے۔ممکن ہے کہ اس بلا کے ساتھ کشمکش میں ہمارے شہر بند ہو،رسل و رسائل کے ذرائع پر پابندی ہو، اور یوں غریب اور محنت کش لوگ مشکلات کا شکار ہوں، ایسے حالات میں ہم نے ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے۔اس بیماری کو سمجھنے والے وہ لوگ،جو اس کے ساتھ برسرپیکار ہیں، یہ بات بڑے یقین سے کہہ رہے ہیں کہ یہ بیماری لوگوں کے بھیڑ میں،جہاں لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہو،یہ بیماری ایک انسان سے دوسرے میں بڑی تیزی سے پھیلتی ہیں۔ہمیں دُنیا کی ان لوگوں کی یہ بات مانتے ہوئے اپنی شادی بیاہ اور فوتگی کے اجتماعات میں احتیاط کرنی ہوگی۔اگر ہم اپنی آبادی کو اس بیماری کے متعلق آگاہی کے لیے ان کی مادری زبانوں بلوچی،براہوی،پشتو،جاموٹی اور اسی طرح پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں میں ماہر ڈاکٹر وں کے ذریعے دس منٹ یا جتنا ماہرین ضروری سمجھیں،روزانہ کے پروگرام شروع کردیں توپاکستان کی تمام آبادی اس بلا کے متعلق آگاہ اور تیار ہوجائیگی۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پشتونوں سے بالخصوص، اور پاکستان کی دیگر اقوام و عوام سے اپیل کریگی کہ انسانیت کے ساتھ ساتھ اس بلا کی جنگ میں ہمارا مورچہ کسی صورت بھی کمزور نظر نہ آئے۔اطلاعات یہ ہیں کہ ہمارے نوجوان اب بھی لگے ہوئے ہیں،میلے اور پکنک منانے میں۔ جو عام حالت میں ایک قابل ستائش بلکہ ضروری عمل ہے۔میرے خیال میں اور دنیا کے ان لوگوں کے خیال میں،جو اس بلا کے ساتھ برسر پیکار ہے،ان حالات میں یہ بے احتیاطی بلکل ٹھیک نہیں۔یہ وقت میلوں،کھیلوں اور پکنک کا نہیں،احتیاط کا ہے۔زندگی رہی تو یہ میلے،کھیل کود اور تماشے پھر کبھی کرینگے۔ایسانہ ہو کہ ہماری بے احتیاطی کی وجہ سے یہ بلا ہمارے لوگوں میں پھیل جائے۔ہمارے غریب بلوچ،پنجابی،سرائیکی،سندھی علاقوں میں نہ تو اچھے ہسپتال ہیں،اور نہ وہ ذرائع جو اس بلا کے مقابلے کے لئے ضروری ہیں۔اگر خدانخواستہ اس بلا نے ہمارے ملک میں پنجے گھاڑ دئیے تو ہمارے یہ غریب لوگ درختوں،خزان زدہ پتوں کی طرح موت کی گود میں چلے جائینگے۔اور دنیا کے رہنے والے ہمارے بھائی ہم سے یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس خطے کے رہنے والے پشتون، بلوچ،پنجابی،سرائیکی، سندھی اور دیگر لوگوں نے انسانیت کی اس بلا کے ساتھ جنگ میں کمزوری دکھائی۔اللہ پاک ہمیں اتحاد و اتفاق دے اور اللہ ہمیں ہمت دے۔ہم نے ہمت کرنی ہے اور اللہ سے امداد مانگنی ہے اور انسانیت کی اس لڑائی میں ہم نے ان کے صفوں میں کھڑا ہونا ہے۔ایک اور بات جو انتہائی اہم اور ضروری ہے اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے کارکن اس کی طرف بڑی سنجیدگی سے متوجہ ہوں،وہ یہ کہ بعض ناعاقبت اندیش قسم کے لوگ یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ یہ بیماری فلاں فرقے کی وجہ سے آئی،فلاں علاقے کے ہزراہ لوگ فلاں علاقے کے پنجابی،یہ باتیں انتہائی قابل نفرت اور قابل مذمت ہیں بلکہ انسانیت دشمن سوچ ہے۔یہ باتیں جہاں سے ہورہی ہیں سرکاری لوگ یا غیر سرکاری لوگ جو بھی یہ گمراہ کن باتیں کر رہے ہیں، ان کو سختی سے منع کردینا چاہئے۔تین مہینے کی قلیل مدت میں یہ بیماری،بلکہ یہ بلا 199 ملکوں میں پھیل گئی،اس بیماری نے یہ نہیں دیکھا کہ کون عیسائی ہے؟کون ہندو ہے؟کون یہودی ہے؟کون مسلمان ہے؟اور نہ اس بیماری نے یہ دیکھا کہ کون سفید ہے،کون سیاہ ہے؟کون خدا کو مانتا ہے اور کون خدا کو نہیں مانتا؟یہ تمام انسانیت پر حملہ آور ایک بلا ہے جس کا مقابلہ سب انسانوں نے مل کر کرنا ہے۔ہم نے اس جنگ کو اس یقین کے ساتھ لڑنا ہے کہ حضرت انسان اپنے اتحاد و اتفاق اور اس علم کے زور پر،جو اللہ نے اسے روز اول سے ودیعت کیا ہے، اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود اس بلا سے بھی اس طرح محفوظ نکل آئیگا،جس طرح پانچ سو سال پہلے یورپ میں طاعون کی بلا سے مقابلے میں اپنے کروڑوں بھاہیوں کی قربانی کے بعد نکل آیا تھا۔ہمیں کوشش کرنی ہے کہ کم سے کم نقصان کے بدلے یہ جنگ جیت لیں،وہ یوں ممکن ہے کہ ہم اپنی حرکات و سکنات دنیا کے ان لوگوں کی ہدایت کے تابع کریں جو اس جنگ میں ہر اول دستہ ہیں۔ سر دست بہتر ہوگا ہم اپنی گلی اور گھر تک اپنی روزمرہ زندگی محدود کردیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں