لیاری اور بلوچ نیشنلزم
تحریر: جیئند ساجدی
کالونیلزم اور پوسٹ کالونیلزم کے طلبہ کیلئے یہ بات بالکل تعجب خیز نہیں ہوگی کہ نیشنلزم اور شہرکاری (Urbanization) کا چولی دامن کا ساتھ ہے، یہاں تک کہ نیشنلزم کے ماڈرن مکتبہ فکر کے اسکالرز کی یہ رائے ہے کہ نیشنلزم شہر کاری کی پیداوار ہے، ان کے مطابق صنعتی انقلاب کے وقت بہت سے دیہات کے لوگوں نے چھوٹے چھوٹے شہروں کا رخ کیا جہاں کارخانے قائم ہوئے تھے اور ان چھوٹے شہروں کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا، اسی صنعتی انقلاب کے وقت پرنٹ ٹیکنالوجی بھی وجود میں آئی اور مقامی زبانوں میں اخبارات شائع ہونے لگے، ان اخبارات کے مدیروں نے اپنی اپنی مقامی زبانوں کا ایک اسٹینڈائزڈ لہجہ بنایا اس سے قبل جتنے بھی یورپیئن زبانیں تھیں ان کے مختلف مختلف لہجے تھے مثال کے طور پر جرمن زبان کے مختلف لہجے تھے اور ان لہجوں میں اتنا فرق تھا کہ شمالی جرمن والے جنوبی جرمن والوں کی زبان ہی نہیں سمجھتے تھے، جب صحافیوں نے اسٹینڈائزڈ لہجہ بنایا تو مختلف دیہات کے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوئی اور وہ اپنے سیاسی خیالات ایک دوسرے کیساتھ اظہار کرتے تھے اسی دوران تنظیم سازی اور مختلف یونینز نے بھی جنم لیا اور لوگ خود کو اپنی علاقائی شناخت کے بجائے قومی شناخت کو ظاہر کرنا پسند کرتے تھے۔ اس حوالے سے ایک کینیڈین اسکالر James Mellon اپنے ایک تحقیقی آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ شہر کاری کی وجہ سے نیشنلزم کو بہت تیز رفتاری کیساتھ فروغ ملتا ہے، ان کے مطابق دیہات میں لوگ اپنی شناخت اپنے چھوٹے چھوٹے طائفوں یا قبیلوں سے کرواتے ہیں لیکن جب مختلف قبائلی اور طائفے شہر میں آباد ہوتے ہیں تو ان کی اپنے قبیلے یا طائفے کیساتھ وفاداری کم ہوجاتی ہے اور وہ وسیع پیمانے پر سوچتے ہیں اور قومیت کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ دیہاتی اور شہری آبادی میں یہ فرق ہوتا ہے کہ دیہات کے لوگ اکثر قدامت پسند ہوتے ہیں اور تبدیلی کو پسند نہیں کرتے جبکہ شہروں میں نئی نسل قدامت پسندی کو پسند نہیں کرتی اور وہ جدیدیت کی طرف چلے جاتے ہیں جس سے قوموں کی اصلاح ہوتی ہے۔ انہی شہروں میں سیاسی نظریے جنم لیتے ہیں اور قومیں، سیاسی تنظیمیں یا سیاسی جماعتیں تشکیل دے دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے سیاسی، سماجی اور دیگر بنیادی حقوق کا تحفظ کر پائیں۔ اس کے علاوہ عدل و انصاف کیلئے عدالتیں قائم ہوتی ہیں اور بچوں کی تعلیم کیلئے تعلیمی ادارے قائم ہوتے ہیںلوگوں کی معلومات کو پورا کرنے کیلئے میڈیا ہاﺅسز بھی جنم لیتے ہیں، یہ تمام عناصر ملکر ایک نئی کلاس تشکیل دیتے ہیں جسے مڈل کلاس کہا جاتا ہے، جس میں وکیل، صحافی، لکھاری، اساتذہ اور تعلیم یافتہ نوجوان شامل ہوتے ہیں۔ اگر انقلاب فرانس، متحدہ جرمنی اور متحدہ اٹلی کی قومی تحریکوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان تمام تحریکوں کے مرکز بڑے بڑے شہر تھے جیسا کہ پیرس، میلان، برلن اور فرینکفرٹ، اور ان تحریکوں کو چلانے والے اکثر مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ یورپ کے علاوہ ایشیا کی بھی تاریخ مختلف نہیں، ہندوستانی قوم پرستی اس وقت پروان چڑھی جب مختلف شہروں جیسا کہ مدراس، کلکتہ اور بمبئی کی آبادیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا اور انہی شہروں میں آل انڈیا کانگریس نے جنم لیااور کانگریس کی لیڈر شپ بھی مڈل کلاس جیسا کہ صحافی، وکلاءاور اساتذہ پر مبنی تھی۔ دوسری طرف کالونیلزم تو ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ سامراجی قوتوں نے آبادکار ریاستوں میں شہر کاری کی لہر کو روکنے کیلئے مختلف مختلف اقدامات کیے ہیں کیونکہ سامراجی قوتوں کو اس بات کا ادراک تھا کہ شہر کاری سے لوگوں کے شعور میں اضافہ ہوگا اور ان کی نیشنلزم کو فروغ ملے گا۔ سابق جنوبی افریقی حکومت جو سفید فام یورپی آباد کاروں پر مشتمل تھی انہوں نے سیاہ فام مقامی افریقی آبادی کے شہروں میں ہجرت کو قابو کرنے کیلئے مختلف قوانین بنائے جس میں سے ایک (پاس لاز) تھا۔ اس کے تحت افریقا کی مقامی آبادی کو اپنے ملک میں ہی سفر کرنے کیلئے ایک مخصوص قسم کے پاسپورٹ کی ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ برطانوی سامراج نے ہندوستان میں شہری آبادی کو فروغ نہ دینے کیلئے شہروں میں گھروں کی قیمت اور کرائے کافی بڑھا دیے تھے تاکہ دیہات کے لوگ شہروں میں ہجرت نہ کر پائیں۔ اس کے علاوہ بہت سی سامراجی اور نیو کالونیل ریاستوں نے شہروں میں آباد مخصوص لسانی گروہوں کی نیشنلزم کی لہر کو روکنے کیلئے اور بھی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں جیسا کہ وہ مخصوص لسانی گروہ کو شہر کے اندر مخصوص علاقوں تک محدود رکھتے ہیں، ان کے علاقوں کو ترقیاتی کاموں کے حوالوں سے بری طرح نظر انداز کرتے ہیں، نہ ان علاقوں میں انفرا اسٹرکچر ہوتا ہے اور نہ ہی ان علاقوں میں وہ کچہری اور تعلیمی ادارے قائم کرنے دیتے ہیں اور میڈیا کو قابو کرنے کیلئے مختلف قانون سازی کرتے ہیں۔ ان لسانی گروہوں کے علاقے بالکل کچی آبادیوں کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی سامراجی قوتیں ان لسانی گروہوں کی آبادیوں میں جرائم کو عام کرتے ہیں اور اسی بہانے سے وہاں سیکورٹی اہلکار تعینات کرتے ہیں تاکہ ان کی سرویلنس میں آسانی ہو۔ حال ہی میں کراچی کا سب سے پسماندہ علاقہ لیاری پاکستانی سماجی اور مین اسٹریم میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جس کی وجہ ہندوستانی فلم دریندر ہے اور اس کا اسکرپٹ لیاری پر ہے، بہت سے پاکستانی سیاسی اور سماجی حلقے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ فلم ملک کیخلاف ایک پروپیگنڈا ہے چونکہ ہندوستان اور پاکستان پچھلے 78 سال سے حریف ہیں اور مختلف جنگیں لڑ چکے ہیں اور ان کے درمیان زمینی تنازعات بھی ہیں تو یہ عام بات ہے کہ تنازعات کے وقت حریف ایک دوسرے کیخلاف پروپیگنڈے کا استعمال کرتے ہیں۔ ایک بات جو پاکستانی سماجی اور سیاسی حلقے بیان نہیں کررہے وہ لیاری کی پسماندگی کی اصل وجوہات ہیں۔ دراصل اس کی پسماندگی کے تانے بانے بلوچ نیشنلزم سے ملتے ہیں، جب سے یہ ملک وجود میں آیا ہے تو اس کی اشرافیہ نے خود کو کبھی ایک کثیر القومی ریاست تسلیم نہیں کیا بلکہ مذہب کی بنیاد پر ایک قومی ریاست منوانے کی کوشش کی ہے اور سندھی، بلوچ یا پشتون نیشنلزم کو انہوں نے ملکی مفاد کے برعکس سمجھنے کا تاثر دیا ہے۔ اس حوالے سے جامعہ قائد اعظم کے اسسٹنٹ پروفیسر سلمان صفی شیخ لکھتے ہیں کہ اسلام آباد بیٹھی اشرافیہ دراصل مضبوط مرکز کی حامی ہے اور وسائل پر اپنا اختیار چاہتی ہے اگر وہ لسانی گروہوں کو تسلیم کرلیں گے تو ان کو یہ خدشہ ہے کہ ہمیں وسائل صوبوں کیساتھ بانٹنے پڑیں گے اور وہ وسائل پر اپنی اجارہ داری کو چھوڑنے کے حق میں نہیں تو لہٰذا مسلم نیشنلزم کا جو نظریہ ہے وہ اشرافیہ کی بالادستی کو قائم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ لیاری کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ پہلا بلوچ شہرکاری والا علاقہ ہے جہاں مکران، جنوبی جھالاوان اور مغربی بلوچستان سے بہت سے بلوچوں نے ہجرت کی ہے۔ بلوچوں کی پہلی سیاسی تنظیم انجمن اتحاد بلوچاں بھی لیاری میں قائم ہوا تھا جو ینگ بلوچ اور قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی سے بھی قدیم ہے، آج بھی انجمن اتحاد بلوچاں تاریخی دفتر لیاری میں وجود رکھتا ہے۔ پارٹیشن کے بعد ریاستی اشرافیہ کو یہ خدشہ تھا کہ لیاری کی ترقی سے بلوچ نیشنلزم کو فروغ ملے گا جو ان کے نظریہ اور مفادات کے برعکس تھا لہٰذا انہوں نے لیاری کو بری طرح سے نظر انداز کیا حالانکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ کراچی کا سب سے قدیم علاقہ ہے اور اسے کراچی کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے باوجود لیاری کے لوگوں نے جنرل ایوب خان کے مارشل لا کے وقت سیاسی مزاحمت کا مظاہرہ کیا تھا اور بلوچ لیڈر شپ جن میں سردار عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو نے لیاری کے ککری گراﺅنڈ میں ون یونٹ کیخلاف اور بلوچستان کو صوبہ بنانے کے حق میں ایک تاریخی جلسہ بھی کیا تھا۔ 1970ءمیں لیاری کو بلوچستان سے کاٹ کر سندھ میں ڈالا گیا، عدیم سہیل نے ڈان اخبار کیلئے ایک تحریر لکھی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ لیاری کا جو ماڑی پور روڈ ہے وہاں ویلکم ٹو بلوچستان کا بورڈ بھی تھا۔ 70ءکے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کا نظریہ استعمال کرکے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔ پاکستان میں سوشلزم کا نظریہ نیشنلزم کے نظریے کے برعکس ہوتا ہے، یہاں کے سوشلسٹ کے مطابق عوام کا مسئلہ طبقاتی مسئلہ ہے نہ کہ قومی لہٰذا پیپلز پارٹی کے اس کلاس پروپیگنڈے نے لیاری میں اپنا اثر پکڑا اور لیاری کے عوام بلوچ قومی شناخت سے دور چلے گئے۔ پیپلز پارٹی چونکہ ایک وفاقی پارٹی تھی جس کا مقصد وفاق میں حکومت قائم کرنا تھا قومی نعرہ لگانا اس کے مفاد میں بھی نہیں تھا کیونکہ لیاری میں اکثریت سندھیوں کے بجائے بلوچوں کی تھی۔ اس دوران ایک لسانی جماعت ایم کیو ایم نے بھی کراچی میں جنم لیا یہ ان افراد پر مشتمل تھی جو شمالی ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی آئے تھے، اے آر صدیقی جن کا تعلق اسی لسانی گروہ سے تھا جو سابقہ ڈی جی آئی ایس پی آر بھی تھے انہوں نے اردو بولنے والوں کے حوالے سے یہ بات تحریر کی تھی کہ 47ءسے لیکر 65ءتک اردو بولنے والوں کو ریاستی سرپرستی حاصل تھی اور وہ پنجاب کے جونیئر پارٹنر تھے لیکن جب انہوں نے ایوب خان کے بجائے فاطمہ جناح کو الیکشن میں سپورٹ کیا تو ان کی ریاستی سرپرستی ختم ہوگئی اس کے بعد ان کو دیوار سے لگایا گیا۔ اس کی وجہ سے ایم کیو ایم نے جنم لیا جس کا طرز عمل عسکری جماعت جیسا تھا، اس جماعت کو فروغ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملا اور ایم کیو ایم نے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے فلسفے پر عمل کرکے کراچی کو قابو کرنے کی کوشش کی اور دیگر لسانی گروہوں سے حقارت کا اظہار کیا، اس دوران ایم کیو ایم کی مخالف جماعت پی پی کو بھی مسلح گروہوں کی ضرورت تھی تو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے لیاری میں کچھ گینگسٹر بنائے تاکہ ایم کیو ایم کے مقابلے میں ان کے پاس بھی کوئی لاٹھی ہو لیکن پیپلز پارٹی کے لیاری میں عروج کے وقت بھی بلوچ نیشنلزم قائم و دائم تھا۔ انور بھائی جان نامی ایک قوم پرست نے ایک جماعت تشکیل دی جس کا نام بلوچ اتحاد تھا جو کہ پی پی مخالف اور لیاری میں گینگ وار کے مخالف تھی، انور بھائی جان کا سیاسی کیریئر بہت ہی طویل ہے، ان کے بلوچستان کی بلوچ لیڈر شپ کیساتھ قریبی تعلقات تھے اور حیدر آباد سازش کیس میں انہوں نے سیاسی مزاحمت کی تھی اور کراچی کے بلوچوں کو منظم کیا تھا وہ سردار شیر باز مزاری کے بھی قریبی ساتھی تھی اور ان کی تحریک کو بھی انہوں نے سپورٹ کیا تھا۔ 2005ءمیں ان کو لیاری میں قتل کیا گیا جس کا الزام کچھ لوگ رحمن ڈکیت عرف رحمن بلوچ پر لگاتے ہیں لیکن یہ خدشہ غلط نہیں ہوگا کہ ان کے قاتلوں کا مقصد بلوچ نیشنلزم کو لہر کو لیاری میں روکنا تھا۔ ہندوستان کی فلم کے جواب میں سننے میں آرہا ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری بھی حرکت میں آگئی ہے اور میرا لیاری کے نام سے ایک فلم بن رہی ہے، یقیناً یہ فلم بھی لیاری کی اصل داستان بیان نہیں کرے گی اور اس کا ایک ہی مقصد ہوگا کہ کسی طرح ہندوستان کے پروپیگنڈے کو کاﺅنٹر کیا جائے۔


