نون لیگ کاشوکازریزہ ریزہ
اگلے روزنون لیگ کی جانب سے جاری کردہ شوکاز پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں زیر غور تھا، مختلف زاویوں سے تجزیہ جاری تھا کہ اچانک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یہ کہتے ہوئے شوکاز پھاڑ دیا کہ سیاست کے اپنے آداب ہوتے ہیں، سب ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں،کوئی کسی کو شوکاز جاری نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہاپی ڈی ایم میں برابری کی بنیاد پر شامل ہوئے کسی کو جوابدہ نہیں۔مسلم لیگ نون کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال نے شوکاز نوٹس پھاڑنے پر اپنے تأثرات دیتے ہوئے کہ:وضاحتی نوٹس پھاڑ کر بلاول نے پی ڈی ایم سے وابستگی کو ریزہ ریزہ کردیا۔جے یو آئی کے مرکزی سیکرٹری جنرل نے کہا ہے:پی ڈی ایم کو کمزور کرنے والے احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں، کسی کے جا نے سے تحریک ہر گز کمزور نہیں ہوتی۔جمہوریت کی الف‘بے سے واقفیت رکھنے والے ہر شہری کو تینوں پارٹیوں کے غیرسیاسی رویہ پر حیرت کی بجائے افسوس ہوا۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ملک کی دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک کے سربراہ ہیں۔انہیں ذاتی حیثیت میں جو چاہیں، کرنے کا اختیار حاصل ہے لیکن اپنی پارٹی کی سی ای سی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہیں، تحمل اور بردباری سے کام لینا چاہیئے۔چیئرمین کسی بھی پارٹی کا ہو اسے ہمیشہ منفرد مقام حاصل ہوتا ہے۔چیئرمین کاعہدہ نہ صرف پارٹی کا اعلیٰ ترین عہدہ سمجھاجاتاہے بلکہ دیگر سیاسی پارٹیاں بھی اس کا احترام کرتی ہیں۔ اس عہدے کا اپنا وقار ہے، اس وقار کو ہر وقت یاد رکھا جانا ضروری ہے۔اگر نون لیگ کی قیادت نے بلاسوچے سمجھے شوکاز جاری کردیاتھا تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ ویسا ہی جواب دیاجائے۔خوبصورت انداز میں جواب دیاجاتا، اس سے نون لیگی رہنماؤں کی سیاسی تربیت ہوتی،آئندہ وہ ایسی غیر سیاسی غلطی کا اعادہ نہ کرتے۔تند و تیز بیانات کی گنجائش نہ رہتی۔پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں اس مسئلے کو رکھا جاتا۔سیر حاصل بحث ہوتی۔ان سے تحریری جواب مانگا جاتا کہ انہوں نے کس اختیا رکے تحت پی ڈی ایم کی رکن جماعت کو شوکاز جاری کیا ہے؟ ابھی ملکی سیاست کی نوک پلک سنوارنے کی ضرورت ہے۔نون لیگ اپنے سربراہ(محمد خان جونیجو) کے خلاف حد درجہ نازیبا طریقہئ کار اپناکے وجود میں آئی۔مسلم لیگ واحد سیاسی جماعت ہے جس کے نصف درجن گروپ آج بھی مختلف لاحقوں اور سابقوں کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں نظر آ جائیں گے۔وزیر داخلہ شیخ رشید احمد خودبھی ”عوامی“ نامی مسلم لیگی دھڑے کے سربراہ ہیں،انہیں ہر روز ”نون“لیگ سے ”شین“ لیگ نکلتی دکھائی دیتی ہے۔ان کا کہنا ہے صرف رسمی اعلان ہونا باقی ہے۔مریم نواز کی قیادت میں نون لیگ اپنا بیانیہ لے کر جہاں تک چل سکتی ہے،چلے گی، تاہم مختلف وجوہ کی بناء پرپاکستانی سیاست کے مزاج کو سمجھنے والے اس کا مستقبل زیادہ روشن نہیں دیکھتے۔ ایک بڑی وجہ نون لیگ کے تاحیات قائد کالندن میں مقیم ہونا ہے۔مریم نواز کو یاد ہوگا کہ وہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود نون لیگی ورکرز کو مینار پاکستان جمع نہیں کر سکی تھیں۔ تھکادینے والا مقدمات کا انبار ان کے کندھوں پر ہے۔ضمانت منسوخ کرانے کے لئے نیب عدالت پہنچ گیا ہے۔پاسپورٹ کی منسوخی سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ان کے فوج مخالف بیانیہ کو پنجاب میں پذیرائی نہیں ملی۔اس کے بغیر وہ سیاست کے میدان میں کوئی نئی شناخت نہیں رکھتے۔پی پی پی سے بگاڑ پیدا کرکے نون لیگ کے قد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔استعفے دینا ان کے بس میں نہیں۔جے یو آئی کا رویہ ناقابل فہم ہے۔انہیں اسلام آباد پہنچنے کی جلدی ہے جے یو آئی کے سربراہ کہنے لگے ہیں: کوئی ساتھ آئے یا نہ آئے،عید بعدوہ ضرور اسلام آباد جائیں گے۔سیاست میں اس قسم کی ضد فائدہ مند نہیں ہوتی۔ مدارس کے طلباء ان کی افرادی قوت کا نمایاں حصہ سمجھے جاتے ہیں۔مدارس کی تعطیلات عید الاضحیٰ کے فوراً بعد شروع ہوتی ہیں۔ مئی جون میں گرمی عروج پر ہوتی ہے۔جولائی اگست میں مون سون کی بارشیں ایک مسئلہ بن جاتی ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی ایم ڈی ایم عوام کی نظروں میں اپنی جاذبیت کھو بیٹھی ہے۔قیادت کے دل میں خواہشات کتنی ہی توانا کیوں نہ ہوں،عوام کو سڑکوں پر نہیں لا سکتیں۔رمضان میں صرف عبادت ہی توجہ کا مرکز نہیں ہوتی، رمضان اور عید کے اخراجات بھی ایک مسئلہ بن جاتے ہیں۔لانگ مارچ کو پکنک سمجھنے والوں کی تعداد پر بھروسہ کرنا سیاسی اعتبار سے نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔عام آدمی کے لئے عید بعد لانگ مارچ میں شریک ہونا آسان نہیں ہوگا۔نون لیگ اگر سنجیدگی سے حالات کا جائزہ لے تو اسے بھی بغیر مناسب تیاری اسلام آباد کا رخ کرناشاید قابل قبول نہ ہو۔نون لیگ لاکھ انکار کرے مگرپی پی پی نے مستعفی نہ ہونے کا مؤقف نون لیگ سے منوا لیا ہے۔ڈسکہ کی سیٹ جیتنے کے بعد
نون لیگ نے جس خوشی کا اظہار کیا ہے اس سے بھی ان ہاؤس تبدیلی کی حمایت جھلکتی ہے۔ الغرض یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں سیاست ابھی بلوغت کو نہیں پہنچی۔معروضی حالات کو نظر انداز کر نا جماعتی قائدین کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔مسلسل ناکامی کے باوجودذاتی خواہشات ہی ان کی پہلی ترجیح ہیں۔عام آدمی مہنگائی کی وجہ سے اتنا ہی ناراض ہوتا جتنا کہ پی ایم ڈی دعویٰ کرتی ہے تو پی ٹی آئی کوڈسکہ ضمنی انتخاب میں یکسر مسترد کر دیتا،اسے 93ہزار سے زائد ووٹ نہ ملتے۔پی پی پی ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے، جے یو آئی کا اس سے موازنہ نہیں کیاجاسکتا۔جے یو آئی کے جنرل سیکرٹری سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری کا یہ کہنا درست نہیں کسی کے چلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔جمہوریت میں دوسروں کا احترام کرنا سیاست کا پہلا سبق ہے۔پورا نصاب اسی مرکزی اصول کی تفصیل ہے۔ایک ایک ووٹر کے گھر پر دستک دینا اور اسے پولنگ اسٹیشن تک عزت کے ساتھ لے جانا اسی اصول کی قوت کا عملی مظاہرہ ہے۔اس اصول کی نفی آمریت کو جنم دیتی ہے۔مولانا کی تربیت سیاسی ماحول کی بجائے عقیدت کے ماحول میں ہوئی ہے۔عقیدت مند اپنے روحانی پیشوا کی ایئر کنڈیشنڈ گاڑی کے ساتھ ننگے پاؤں تپتی سڑک پر دور تک دوڑنا اپنی خوش بختی سمجھتے ہیں۔ سیاسی اور جمہوری اقداراس کے برعکس ہیں۔مولانا ابھی تک اپنے عقیدت مندوں کے جھرمٹ میں کھڑے ہیں، انہیں جمہوری اقدار کی اہمیت کا اندازہ نہیں۔جس روز عوام کی ضرورت محسوس کریں گے،اپنی اصلاح کر لیں گے۔


